1947 اگست: شیخوپورہ پر کیا بیتی؟


پنجابی لکھاری، شاعر، گائک، کہانی کار، ناول نگار اور سکھ مؤرخ، گیانی سوہن سنگھ سیتل کا جنم 1909 میں ضلع لاہور کی تحصیل قصور کے ایک گاؤں کادی ونڈ میں ہوا۔ ان کی سکھ تاریخ سے متعلق پہلی کتاب ’سکھ راج کیویں گیا‘ کے نام سے 1944 میں چپھی۔ ناولوں میں ’توتاں والا کھوہ‘ اور ’جگ بدل گیا‘ مشہور ہوئے۔ ناول ’جگ بدل گیا‘ کو 1974 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔

ان کی ایک کتاب ’پنجاب دا اجاڑہ‘ کے نام سے چھپی۔ اس کتاب میں 1947 میں پنجاب میں ہونے والے فسادات کے دوران کے حالات قلم بند ہیں۔ بادی النظر میں یہ کسی ادیب کی قومی کرب سے لکھی ہوئی، کوئی ادبی کاوش معلوم ہوتے ہیں۔ اس میں درج واقعات کے عینی گواہوں کے نام اور ان کے عہدے بھی درج ہیں اور ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کتاب پہلی دفعہ 1948 میں چھپی۔ اس کتاب میں پنجاب کا ضلع وار احاطہ کیا گیا ہے۔

تقسیم کے نتیجے میں گیانی سوہن سنگھ سیتل کو بھی اپنی علاقہ کادی ونڈ (قصور) چھوڑنا پڑا۔ اس دوران ریفیوجی کیمپوں میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے متاثرین کی روداد کو مصنف نے محفوظ کر لیا۔ پھر اُن الگ الگ بیانات کا ترتیب دے کر کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔

اس کتاب سے ایک اقتباس:

ضلع شیخوپورہ:

اس دوران ضلع شیخوپورہ میں جو کچھ بیتا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ جنہوں نے وہ خون کی ہولی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، انہیں تمام عمر نہ بھول پائے گی۔

اورنگزیب، فرخ سیر اور میاں منوں کے برے ادوار کے بعد، یہ پھر سے کھیلا گیا اک خونی ناٹک تھا۔ اس بارے میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے، ایک معزز ساتھی کا بیان دوہرا دیتے ہیں۔ جنہوں نے وہ قتل عام، اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ شری ’گُردیال سنگھ جی‘ بی۔ اے، ایل۔ ایل۔ بی، اس وقت شیخوپورہ کے تحصیلدار تھے۔ جب میں ان کا دیا گیا یہ بیان لکھ رہا تھا، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا، گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے، وہی سب کچھ، ایک بار پھر سے وقوع پذیر ہو رہا ہو۔ چنانچہ کئی بار وہ لکھواتے لکھواتے چپ کر جاتے اور ان کا پورا جسم کانپنے لگتا۔ ان کے بازؤں کے پٹھے پھڑتے تھے۔ جبکہ قومی درد سے لبریز سینے کے اندر موجود دل تڑپتا تھا۔

نیچے دیا گیا سب احوال انہی کی زبانی سنیئے۔

”پاکستان کی سرکار بن گئی اور ضلع شیخوپورہ پاکستان میں آ گیا۔ ڈپٹی کمشنر کے پاس جا کر میں نے بینتی کی کہ مجھ سے تحصیلداری کا چارج لے لیا جائے۔ لیکن اس دن ڈی سی نے انکار کر دی۔ میرے دوبارہ کہنے پر آخر 20 اگست کو مجھ سے چارج لے لیا گیا۔ میں نے ڈی۔ سی سے کہا کہ میرا ہندوستان پہنچنے کا انتظام کر دیا جائے۔ لیکن وہ مدد کرنے کے بجائے الٹا رکاوٹیں ڈالنے لگا۔ یہاں تک کہ کار کے لیے پٹرول مہیا کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ہم ڈی۔ سی کا ارادہ سمجھ گئے اور کوئی دیگر بندوبست ڈھونڈے میں مصروف ہو گئے۔

22 اگست کو صبح پانچ بجے، شری آتما سنگھ (چار دیگر پریواروں کے ساتھ) لاریوں پر سامان لاد کر باہر نکلے۔ شیخوپورے سے سات میل دور نہر کے پل پر انہیں پولیس نے روک لیا۔ لاریوں کی تلاشی لی گئی۔ پانچ گھنٹے اسی جھگڑے میں پولیس نے لاریاں روکے رکھیں۔ بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ شری آتما سنگھ آگے بڑھنے کے لیے کہتے، جبکہ پولیس مڑنے کے لیے۔ آخر 10 بجے آتما سنگھ لاریوں سمیت شیخوپورہ واپس آ گئے۔

اس دن پنجاب کانگریس کے سیکرٹری ڈاکٹر لہنا سنگھ، اپنے کچھ ساتھیوں سمیت شیخوپورہ آئے۔ شہر کے معتبر لوگ ان سے ملے (میں بھی ان کے ہمراہ تھا) ۔ ان سے شیخوپورہ کے بچاؤ کے لیے کچھ کرنے کی درخواست کی۔ وہاں ملٹری کی نفری صرف چار سو تھی، جو مسلمان بلوچ تھے۔ اس لیے ہندؤوں اور سکھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندو سکھ ملٹری بھیجی جائے۔ ڈاکٹر لہنا سنگھ جی نے کہا کہ پروگرام کے مطابق ہمیں سرگودھا پہنچنا ہے۔ وہاں سے واپسی پر یہاں کا انتظام کریں گے۔ شہر والے اس بات پر زور دیتے رہے کہ پہلے یہاں کا بندوبست پہلے کیا جائے، لیکن ڈاکٹر صاحب نہیں مانے۔

کانگریسیوں کے چلے جانے کے بعد ڈی سی نے اعلان کیا کہ سامان لے کر تانگہ، گڈا، لاری وغیرہ میونسپلٹی کی حد سے باہر نہیں جا سکتے۔ اس اعلان سے شہر کے رہائشی گھبرا گئے۔ 23 اگست کو ڈی سی نے پھر اعلان کیا کہ بنا پرمٹ کے کوئی بھی شہر سے باہر نہیں جا سکتا۔ اس دن میں نے بہت کوشش کی، کسی بھی قیمت پر کوئی ٹرک مل جائے اور میں شہر سے باہر چلا جاؤں، لیکن ڈی۔ سی نے پرمٹ نہ دیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3