جنوبی پنجاب کے سیاسی نمائندوں کی خوش بیانی کے نمونے : میں شرمندہ ہوں


تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی مجید خان نیازی اور احمد علی اولکھ کے درمیان لیہ کی تحصیل کہروڑ کے کچہ کے علاقہ میں ہونیوالے بے ہودہ واقعہ سے پہلے ہی، میں اتفاق سے، تھل کے سیاستدانوں کی سوشل میڈیا پر ان کی تقریروں میں استعمال کی گئی زبان کو سن رہا تھا۔ ایک بار سن کر پھر سنتا تھا تاکہ ان کے الفاظ پیچھے کھڑی فرعونیت کو سمجھ سکوں۔ اس دوران کہروڑ میں یہ واقعہ ہوگیا جس میں پہلے مجید خان نیازی نے رکن صوبائی اسمبلی کو ننگی گالیاں دیں۔ پھربھی تسلی نہیں ہوئی تو اس کو عملی طورپر سبق سکھانے کے لئے ایک ڈیرے پر اخلاقی قدروں کو پس پشت ڈال کر آپریشن کیا گیا۔

ادھر بعدازاں اولکھ کے بیٹے اور حامیوں کی طرف سے بھی کوئی کمی نہیں رکھی گئی جو ان کے منہ میں آیا انہوں نے بھی کہروڑ کے چوک میں کھڑے ہوکر کہا ہے۔ بہرحال نیازی اور اولکھ کے دریائے سندھ کنارے ہونیوالے بے ہودہ تنازع پر بات کرتے ہیں لیکن تھل کے دیگرسابق ارکان اسمبلی کی جلسوں میں ورتی گئی زبان بھی دیکھ لیتے ہیں تاکہ سند رہے۔ سابق رکن صوبائی اسمبلی قیصر مگسی کی چوبارہ میں کی گئی تقریر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

اس کو پڑھ لیں۔ موصوف سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں لاؤڈ اسپیکر میں اپنے مخالفین کو فرما رہے ہیں کہ ”آپ منہ اٹھا کر بھاگتے ہوئے آتے ہیں۔ آپ کو پوری تحصیل چوبارہ میں کوئی عزت دار بندہ نہیں ملتا ہے۔ ایک سعیدا لوہار اور مصطفٰے لوہار آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ دوستو آج میں مجبوراً، کچھ ایسی باتیں کرنا چاہتاہوں کہ وہ کہتے ہیں نا، ’جلے ہوئے بندے کے منہ سے کوئلے نکلتے ہیں‘ اللہ تعالی نے کچھ ایسے بے غیرت اس دنیا پر پیدا کیے ہیں، جن کو ساری زندگی غیرت نہیں آنی ہے۔

”سب سے بڑا بے غیرت چوک اعظم کا ہے، اس کا نام ریاض گرواں ہے۔ جس کو میں نے کمیٹی کا چئیرمین بنایا، وہ اٹھ کر میرے گاٹے لگ گیا۔ میرے مقابلے میں الیکشن لڑا ہے۔ دوسرے نمبر پر ایک عرفان کالو ہے، وہ کوئی مانگا منڈی سے آیا ہے، جس کا کوئی نہ آگڑوا جانتا تھا اور نہ ہی پچھڑوا جانتا تھا، میں نے اسے یونین کونسل کا وائس چیرمین بنایا۔ اس نے کتے کی طرح مجھے بھونکنا شروع کردیا ہے۔ جس بندے پر بندہ احسان کرے اور جو اپنے محسن پر کتے کی طرح بھونکے، وہ بندہ بے غیرت ہوتا ہے نا۔

”تیسرا بے غیرت ایک زاہدا انبالوی 369 ٹی ڈی اے کا ہے، جس کو وائس چیرمین بنایا، وہ بھی کتے کی طرح مجھے بھونکتا رہا ہے۔ تحصیل چوبارہ میں ایک بہت بڑا بے غیرتاں کا سردار ہے، جس کا نام اعجاز سندھو ہے۔ اس کو وکیل اعجاز ٹینکی کہتے ہیں کیونکہ جو موکل کیس لے کر اس کے پاس جاتا ہے وہ پہلے کہتا ہے کہ پٹرول کی ٹینکی بھروا دیں۔ کچھ اسے اعجازا سندھوکہتے ہیں اور کچھ اسے اعجازا ٹینکی کہتے ہیں۔ جب سے میں 2002 ء سیاست میں آیا ہوں۔ میں اس پر احسان کرتے تھکا ہوں لیکن اس نے بھی 18 سال سے قسم اٹھائی ہے اور توے پر ہاتھ مار کرمنہ پر ملنے کے بعد کہا ہے کہ ’میں نے قیصرمگسی کی مخالفت کرنی ہے۔‘ او تمہارے اوپر اللہ کی لعنت ہو، اعجازا سندھو، بے غیرت نسل، کل تک تم میرے پیروں پر ہاتھ رکھتے تھے کہ میرے بیٹے کو ٹکٹ لے دو، او بے غیرت میں نے تمہارے بیٹے کو ٹکٹ لے کردی۔ تمہاری برادری نے تمہارے بیٹے کے مقابلے میں نائی کو کھڑا کیا، انہوں نے کہا ’ہم نے اعجازے سندھو کے بیٹے کو مبارکے نائی سے ہروانا ہے۔‘

”اور تمہارا بیٹا مبارکے نائی سے ہار رہا تھا۔ تم نے میرے پاوں پر ہاتھ رکھے، مجھے مبارکے نائی کے گھر لے گئے اور میں نے مبارکے نائی کی درخواست اٹھوائی۔ میں نے تمہاری برادری کو منایا اور تمہارے بیٹے کے لئے نائیوں کے گھر گھر جاکر ووٹ مانگے۔ تمہارے بیٹے کو ممبر بنایا۔ تم پر اتنے احسان کیے۔ جب میرا وقت آیا ہے، تم کتے کی طرح مجھے پر بھونکتے رہے ہو۔ او بے غیرتآ، او بے غیرت نسل۔ اعجازا سندھو میں تمہیں پیغام دے رہا ہوں کہ آج تک تم نے میرے بارے میں بڑی بکواس کرلی ہے۔

”آج کے بعد میں تم کو کہہ رہا ہوں، اپنی زبان کو تالا لگواؤ۔ وگرنہ کچہری میں تمہیں جوتے ماروں گا اور تمہارے گلے میں پٹا ڈال کر گھیسٹوں گا۔ دوسرا بے غیر ت نسل، مشتاقا گورایا، لخ دی لعنت آئی، او لخ دی لعنت آئی، مشتاقا گورایا، تمہاری نسل پر لخ دی لعنت ہے، مشتاقا گورایہ۔ او بے غیرتا، جماعت اسلامی کم شیطانی۔ جب سے میں سیاست میں آیا ہوں، تہمارے بیٹے چوری میں جیل گئے، میں نے چھڑائے، تہمارے بیٹے بدمعاشیوں میں جیل ہوئے، میں نے چھڑائے۔ تہماری زمینوں کے فیصلے میں نے کرائے۔“ وغیرہ وغیرہ۔

یہ تو تھے قیصرمگسی کی زبانی ارشادات۔ اب تھل کے ایک اور کردار ہیں ان کی زبان اور انداز کو ملاحظہ فرمالیں تاکہ سند رہے، اعجاز اچلانہ جوکہ الیکشن مہم میں ووٹ مانگنے گیا، ان کے سیاسی انتقام سے تنگ افراد نے ووٹ دینے سے انکار کردیا تو موصوف کا اصل چہرہ باہر آگیا اور ووٹر استاد کے گھر کھڑے ہوکر اس کو دھمکی اس انداز میں دی کہ، ”میں تم سے اچھی کرتا نا، تم مجھے آج ایسے جواب نہ دیتے، میں تم کو ٹھوکاں ہاں، تم آتے میری منتیں کرتے، تمہارا تبادلہ کینسل ہوتا، آج تم میرا جھنڈا لگا کر بیٹھے ہوتے۔“

اعجاز اچلانہ اس نواز لیگی جماعت کا رکن صوبائی اسمبلی ہے جوکہ وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹیڈ کا طعنہ دیتے نہیں تھکتی لیکن ادھر ان کا اپنا رکن صوبائی اسمبلی الیکشن مہم میں لوگوں کو اس انداز میں دھمکا رہا تھا اور سبق سکھا رہا تھا۔ اور اپنے آپ کو الیکٹیڈ سمجھتا ہے۔ تھل میں سیاستدانوں کے چہرے لہور، اسلام آباد میں تو اور ہوتے ہیں لیکن جونہی اپنے علاقوں میں ہوتے ہیں،ان کا سلیبس یکسر بدل جاتاہے اور گفتگو میں فرعونیت کی واضح جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ بھکر جوکہ تھل کا مرکزی ضلع ہے، یہاں کے سابق رکن قومی اسمبلی رشید اکبر خان نوانی نے عوامی جلسہ میں اس انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔

موصوف کا کہنا تھا کہ ”میں نے سب کام کیے ہیں، میں نے لوگوں کو کٹوایا (مروایا) بھی ہے۔ جھوٹے پرچے بھی کروائے ہیں۔ ہر بلا کی ہے، ہرفن کھیلا ہے، ایک عمر تک کیے ہیں، جب عمر کراس کی ہے، اب ہر کوئی کہتا ہے کہ ’رشید خان بوڑھا ہو گیا ہے،‘ اب اس کا غصہ نہیں رہ گیا ہے۔ میری داڑھی سفید ہوگئی ہے، میں اب جوان تو نہیں ہوں۔ اب احمد نواز اور حبیب کا کام ہے، ڈانگ اٹھائیں یا جو کریں، ان پر سجتی ہے اور بغیر ڈانگ یہاں کام ہی نہیں ہے، بابا کوئی مانتا ہی نہیں ہے؟ اپنے کچہ کی سیاست کو جتنا میں سمجھتا ہوں، کوئی نہیں سمجھتا، یہاں صبح شام دودھ پلائیں، شام کو ٹیٹ (گدھا جیسے لات مارتا ہے ) مارتے ہیں، ادھر چلے جاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے ہیں کہ سویر،شام ان کا دودھ پی رہا ہوں، قتل کہیں ہوا، شما درمیان میں آگیا، یہ وہاں پر تھا ہی نہیں۔ میں وہ بندہ ہوں جوکہ دوستوں کے ساتھ خوب نبھاتا ہوں چاہے وہ امیر ہے یا غریب ہے؟ اور نبھانی بھی چاہیے۔ “

مزید پڑھنے کے لئے گلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2