آرٹیکل 370 کے بارے بھارتی اقدام غیر آئینی ہے: مبینہ اسلامی اسکالر ذاکر نائیک


بھارت کے ٹیلی ویژن مسلم اسکالر ذاکر نائیک نے مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے غیر آئینی اقدام قرار دیا ہے۔ اپنے ویڈیو چینل پر پیغام میں ذاکر نائیک نے کہا کہ بھارتی حکمراں جماعت اور بھارتی وزیر اعظم مودی نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 ختم کر دیا ہے۔ ذاکر نائیک نے کہا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو ایک آزاد حیثیت دی گئی تھی۔ آئین میں کہا گیا تھا کہ اس کا اپنا قانون، آئین اور حکومت ہو گی، بھارت کے زیر انتظام ہوگا لیکن آزاد حیثیت ہو گی۔ کوئی غیر کشمیری نہ وہاں جا سکتا اور نہ زمیں جائیداد خرید سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ستر سال بعد بی جے پی کی اسلام مخالف حکومت نے حالیہ انتخابات میں اکثریت ملنے پر آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا اور کشمیر کو یونین ٹیریٹری بنا دیا، یہ غیر آئینی اقدام ہے۔

اکتوبر 1965 میں پیدا ہونے والے طبی ڈگری کے حامل ذاکر نائیک نے 1991 میں اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن قائم کی۔ ان کی منکوحہ فرحت نائیک اس تنظیم کے خواتین شعبہ کی سربراہ ہیں۔ ذاکر نائیک معروف مسلمان مناظر احمد دیدات سے متاثر ہیں۔ اور اپنے آپ کو احمد دیدات پلس کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ مالی بدعنوانی، انتہا پسندی اور دیگر مجرمانہ الزامات کے باعث ذاکر نائیک بھارت میں متنازع حیثیت رکھتے ہیں۔ ذاکر نائیک  نے جولائی 2016ء میں خود کو غیر رہائشی بھارتی قرار دیا تھا۔ انہیں 19 مئی 2017 کو سعودی عرب کی اسلامی حکومت نے اپنی شہریت عطا کر دی تھی۔ تاہم طبی ڈاکٹر ذاکر نائیک نامعلوم ذاتی وجوہات کی بنا پر سعودی عرب کی مقدس زمیں کی شہریت جیسی روحانی نعمت رکھتے ہوئے بھی ملائیشیا میں قیام پذیر ہیں۔ 18 جولائی 2017 کو بھارت حکومت نے ذاکر نائیک کی شہریت منسوخ کر دی۔ 28 جولائی 2017 کو انہیں ایک اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا۔ ملائیشیا حکومت نے انہیں مستقل پناہ دے رکھی ہے۔

جون 2010 میں کینیڈا حکومت نے ذاکر نائیک کو انتہا پسند نظریات کی بنا پر اپنے ملک میں داخلہ دینے سے انکار کیا۔ برطانیہ کی سابق وزیر اعظم ٹریسا مے جب وزیر داخلہ تھیں تو انہوں نے ذاکر نائیک کو برطانیہ میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کو دنیا کا بہترین مذہب قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام کرپشن، امتیاز، ناانصافی، زنا اور شراب نوشی کو برداشت نہیں کرتا۔ ذاکر نائیک موسیقی کو شراب نوشی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ رقص کو حرام سمجھتے ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ اسلام ان برائیوں کو برداشت نہیں کرتا۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک چور کا ہاتھ کاٹنے کو نہایت درست سزا قرار دیتے ہیں۔ ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ مسلمان مرد کو اپنی بیوی کو نرمی سے مارنے پیٹنے کا حق ہے۔ ذاکر نائیک مسلمان مرد کے لئے اپنی لونڈیوں کے ساتھ جنسی فعل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ذاکر نائیک جنسی غلاموں کو جنگی قیدی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام انسانی حقوق میں دنیا کا بہترین مذہب ہے۔ ذاکر نائیک  کہتے ہیں کہ اگر ایک پچاس سالہ مسلمان 16 سال کی لڑکی سے شادی کر لے تو اخبارات میں سرخیان لگ جاتی ہیں۔ اگر ایک پچاس سالہ کافر چھ برس کی بچی کو ریپ کر لے تو محض ایک خبر بنتی ہے۔

مسلمان عورت حجاب پہنے تو اسے غلامی کا نشان بتایا جاتا ہے، مسیحی نن حجاب کرے تو اسے نیکی کا استعارہ قرار دیا جا تا ہے۔ حیران کن طور پر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ ہر اچھے مسلمان مرد کو بنیاد پرست ہونا چاہیے۔ برطانوی حکومت اپنے مخالفین کو دہشت گرد قرار دیتی تھی، آج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ تو اصطلاحات کا کھیل ہے۔ ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ بہت سی ہندوستانی فلموں میں غیر مسلم اللہ اکبر کا نعرہ سن کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور اسے اسلام سمجھتے ہیں۔ اگر وہ اسلام کو جاننا چاہتے ہیں تو انہیں قران پاک اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنا چاہیے

ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ ہم جنس پرست افراد گناہ آلود ذہنی مریض ہیں۔ یہ لوگ مبینہ طور پر عریاں فلمیں دیکھنے سے ہم جنسیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ذاکر نائیک “قران اور سنت کی روشنی میں” ہم جنس افراد کے لئے سزائے موت تجویز کرتے ہیں۔

ذاکر نائیک نظریہ ارتقا کے سخت مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چارلس ڈارون کے نظریات کا کوئی ثبوت نہیں۔ ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ قران میں بیان کردہ ایک بھی نظریہ ایسا نہیں جسے سائنس جھٹلا سکی ہو۔ ذاکر نائیک کا ایک دلچسپ خیال یہ ہے کہ سائنسی نظریات بائبل کی نفی کرتے تھے۔ ذاکر نائیک کا دعویی ہے کہ ہر سائنسی انکشاف قران شریف میں بتایا جا چکا ہے۔ البتی سائنسی نظریات قران کے خلاف اور غلط ہیں۔

اگرچہ ذاکر نائیک کی شہرت میڈیا بالخصوص ٹیلی ویژن کی مرہون منت ہے لیکن وہ میڈیا کے سخت مخالف ہیں۔ اپنی پرکشش جنسی شخصیت کے باعث مسلمان خواتین میں ہردلعزیز ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ میڈیا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیتا ہے۔ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کر دیتا ہے۔ ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ ہمیں میڈیا کو اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں، غلط بیانیوں، غلط تشریحات اور جھوٹ کو ختم کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔

ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ مغربی میڈیا نے اسلام کو انتہا پسند اور دہشت گرد تشخص دینے میں کردار ادا کیا یے۔ ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ مغربی میڈیا اسلامی معاشرے کے غلیظ ترین کرداروں کو اٹھا کر انہیں اسلامی اقدار کی علامت بنا دیتا ہے۔ تاہم 31 جولائی 2008 کو ذاکر نائیک نے ٹیلی ویژن پر کہا کہ 11 ستمبر 2001 کے حملے خود جارج بش نے کئے تھے۔ ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ ایک بے وقوف بھی جانتا ہے کہ نائن الیون کی دہشت گردی جارج بش نے کی تھی۔

ان بیانات کے بعد کینیڈا اور برطانیہ نے ذاکر نائیک کا اپنے ممالک میں داخلہ بند کر دیا۔ ذاکر نائیک سے پوچھا گیا کہ کیا اسامہ بن لادن دہشت گرد ہیں۔ انہوں  نے کہا کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں تو کبھی ان سے ملا ہی نہیں۔ میں نے کبھی ان سے تفتیش نہیں کی، میں ان کا دوست ہوں اور نہ دشمن۔ تاہم ذاکر نائیک نے کہا کہ اگر اسامہ بن لادن اسلام کے دشمنوں سے لڑ رہے ہیں تو میں ان کا دوست ہوں۔ میں انہیں ذاتی طور ہر نہیں جانتا، لیکن اگر وہ امریکا سے لڑ رہے ہیں، جو سب سے بڑا دہشت گرد ہے، تو میں اسامہ بن لادن کا ساتھی ہوں۔ ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ اگر اسامہ دہشت گرد کے خلاف دہشت گردی کر رہا ہے تو اسامہ بن لادن اسلام کا سچا پیروکار ہے۔

2010 میں جب ذاکر نائک کو دہشت گردی کے بارے میں تنقید سننا پڑی تو وہ مکر گئے اور کہا کہ میں نے تو صرف یہ کہا تھا ہر مسلمان کو کفر، اور ہر قسم کی معاشرتی برائیوں کے خلاف دہشت گرد ہونا چاہیے۔جب ذاکر نائیک سے پوچھا گیا کہ کیا مسلمان قاتل ہو سکتا ہے، تو اس نے کہا کہ کسی ایک معصوم کا قاتل ساری انسانیت کا قاتل ہے۔ البتہ زمیں پر فتنہ پھیلانے والوں کو قتل کرنا جائز ہے۔ ذاکر نائیک نے اس موقع پر کہا کہ مغربی میڈیا قران کی سورہ 5 کی آیہ 9 کا حوالہ دے رہا ہے جس میں ہر مسلمان کو کافروں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذاکر نائیک نے کہا یہ آیت میدان جنگ کے بارے میں ہے۔ عام حالات پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

تاہم جولائی 2016 میں ذاکر نائیک نے دوسری عالمی جنگ میں خود کش بمباری کا حوالہ دیتے ہوئے خود کش حملوں کو جائز قرار دیا۔ ذاکر نائیک دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کو جائز سمجھتے ہیں لیکن نام نہاد اسلامی ممالک میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کو درست نہیں سمجھتے۔ ذاکر ناسئیک مسلم اکثریتی ممالک میں گرجا، مندر اور دوسرے غیر اسلامی عبادت گاہوں کی تعمیر کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ غلط مذاہب کی ترویج کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ تاہم ذاکر نائیک جہاد کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح ذاکر نائیک داعش کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔

ذاکر نائیک پر ایک بڑا الزام یہ ہے دنیا کے مختلف حصوں مثلاً بمبئی، ڈھاکہ اور سری لنکا وغیرہ میں دہشت گردوی کرنے والوں نے ان کی تعلیمات سے متاثر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).