ماما قدیر بلوچ سے جنیوا میں ملاقات


ماما قدیر بلوچ، جس کا اصل نام عبدالقدیر بلوچ ہے جس کو اب ہم ”ماما قدیر“ کے لقب سے جانتے اور پکارتے ہیں۔ ماں کے بھائی کو بلوچی زبان میں ماما بولتے ہیں میرے خیال میں عبدالقدیر بلوچ کو ماما کا لقب اس لئے ملا چونکہ بلوچستان میں مسنگ پرسن کے بازیابی کے لئے زیادہ خواتین پیش پیش تھیں تو انھوں نے عبدالقدیر بلوچ کو ”ماما“ مخاطب کیا ہوگا تو شاید اس وجہ سے اس کا نام ماما قدیر ہوگیا۔

ماما قدیر بلوچ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کا زینت اس وقت بنے جب سن دو ہزار تیرہ ( 2013 ) میں اس ضعیف انسان نے کچھ بلوچ خواتین اور چھوٹے بچوں کے ساتھ گمشدہ افراد کے رہائی کے لیے دو ہزار کلومیٹر بلوچستان سے اسلام آباد پیدل مارچ کیا

ماما قدیر بلوچ کے اپنے جوان سال بیٹے جلیل ریکی بلوچ کو دو ہزار بارہ ( 2012 ) میں اغوا کر کے بعد میں قتل کردیا گیا اس واقعے کے بعد قدیر بلوچ نے بلوچ مسنگ پرسنز کے لئے آواز اٹھانا شروع کردیا۔

عید ہو، چھٹی ہو، بارش ہو، طوفان ہو ماما قدیر روز صبح بلوچ مسنگ پرنسز کی تصاویر لے کر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیمپ میں جا کر بیٹھ جاتا ہے اور شام کو واپس گھر چلا جاتا ہے اور دوسری صبح پھر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ ماما قدیر کے ساتھ اس کیمپ میں بلوچ خواتین اور بچے بھی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی وقفے وقفے سے کچھ انسانی حقوق کے رہنما، بشمول سیاستدان اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی حوصلہ افزائی کے لئے بیٹھنے آجاتے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ سے میری پہلی ملاقات سویرزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اس وقت ہوئی جب وہ ”بلوچ وائس ایسوسی ایشن“ نامی تنظیم کے توسط سے ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ 2018 کو اقوام متحدہ کے سیشن میں مدعو کیے گیے تھے تو میں نے موقع غنیمت جان کر اس سے جنیوا میں بحثیت بلوچ ملاقات کی۔

میرے انٹرویو کرنے تک ماما قدیر بلوچ بلوچ مسنگ پرنسز کے مسئلے کو کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد، امریکہ سے لے کر اقوام متحدہ کے دفتر پہنچا چکے تھے، جنیوا آکر ماما قدیر بلوچ آقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے فلور پہ بلوچ مسنگ پرنسز کے حوالے سے فریاد بھی ریکارڈ کروا چکے تھے۔

جب ماما سے ملا تو وہ بلوچی لباس پہنے اپنے دراز قد کے ساتھ میرے سامنے ہوٹل میں بیٹے تھے۔ ماما قدیر بلوچ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں اور پوری ملاقات کے دوران میں نے ان کو ہنستے ہوے نھیں دیکھا۔

ماما سے جب میں نے پوچھا کہ ”آپ کیا سمجھتے ہو کہ اب بلوچ مسنگ پرسنز آزاد ہوں گے؟“ ماما نے جواب دیا کہ ”مجے امید ہے ایک دن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو دنیا کو جواب دینا ہوگا اور بلوچ سمیت تمام انسانی حقوق سے محروم لوگوں بشمول پشتون، سندھی، مہاجر، پنجابی سب کو عقوبت خانوں اور ٹارچر سیلوں سے آزاد کرنا ہوگا۔ اگر کسی نے کوئی بھی غلط کام کیا ہے اور غلط کام میں مطلوب ہے تو حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سب کو عدالت میں پیش کریں یہ زبردستی اٹھانا، غائب کرنا، قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ میں اپنی آخری سانس تک بلوچ مسنگ پرنسنز سمیت اور دوسرے لاپتہ افراد کے بازیابی تک آواز اٹھاتا رہوں گا۔“

جب میں نے پوچھا ”ماما کیا آپ کو ڈر نھیں لگتا؟“ ماما نے کھا ”وہ مجھے مار سکتے ہیں اغوا بھی کر سکتے ہیں زھر بھی دے سکتے ہیں مگر ان تمام حالات کے لئے روز اول سے تیار ہوں، اور ایک مرے ہوے آدمی کو اور کیا وہ مار سکتے ہیں جن کے ہزاروں کے تعداد میں فیملی کے بچے، بوڑھے مرد اور عورتیں تک غائب اور گرفتار ہوں، میں روز مرتا ہوں روز جیتا ہوں۔“

جب پیدل لانگ مارچ کے حوالے سے میں نے سوال کیا کہ ”آپ کو کون کون سی مشکلات پیش آئیں؟“ تو ماما بولے، ”انہوں نے بہت کوشش کی میری آواز کو دبانے کی۔ طرح طرح کے حربے استعمال کیے، مجھے پیسوں، عہدوں کی لالچ کے ساتھ ہر طرح کی آفر کی مگر میرا ایک ہی مقصد ہے جس کے لئے میں اپنی زندگی کی آخری سانس قربان کرنے کو تیار ہو۔“

جب ماما یہ سب بیان کر رہا تھا تو میں نے اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سمندر دیکھا جو شاید اندر ہی اندر موجوں کی شکل میں آنکھوں سے باھر آنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ماما ان کو اندر ہی اندر دبا رہے تھے۔

ماما کے سامنے تین چار کھانے کی ڈشیں رکھی تھیں مگر ماما تین یا چار نوالوں سے زیادہ کچھ بھی نھیں کھا سکے۔ جب ماما سے میں نے وجہ دریافت کی تو ماما نے بتایا کہ ”طویل بھوک ہڑتالوں کی وجہ سے میرے معدے میں انفیکشن ہوچکا ہے جس وجہ سے میرا کھانا یہ ہی تین یا چار لقمے ہیں۔ “

جاتے ہوئے ماما سے میں نے پوچھا کہ ”اس کا اب آئندہ لائحہ عمل کیاھوگا؟“ تو ماما نے کہا ”میں روز جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا رہوں گا اور جب بھی جدھر بھی ضرورت پڑی موقع ملا بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا رہوں گا۔“

ماما قدیر بلوچ جنیوا میں ایک ہفتہ تک رہے اس دوران انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم، کشمیری، سندھی، مھاجر، نمائندوں نے ماما قدیر کے اعزاز میں عشائیے بھی رکھے اور سیمنار بھی منعقد کیے جس میں ماما قدیر نے بحٹیت مہمان خاص شرکت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments