مسئلہ کشمیر: اہم مسلم ممالک کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟


سعودی عرب، ایران، ترکی، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین اور عمان کو اسلامی دنیا کے اہم ممالک تصور کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کون سا ملک اس وقت کس کے ساتھ کھڑا ہے؟ جانیے کون سا مسلمان ملک بھارت کا کیوں ساتھ دے رہا ہے؟

کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خلیج کے تقریبا سبھی عرب ممالک خاموش ہیں۔ اس خاموشی کی سب سے بڑی وجہ ان مسلمان ملکوں کے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط ہیں۔ بھارت جزیرہ نما عرب کا انتہائی اہم اقتصادی پارٹنر ہے اور ان ممالک کے ساتھ سالانہ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت کرتا ہے۔

علاقائی حوالے سے سب سے اہم اسلامی ملک سعودی عرب نے صرف اتنا کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تحمل سے حل کیا جائے اور وہ اس حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔ جبکہ کویت، قطر، بحرین اور عمان جیسے دیگر خلیجی ممالک نے ابھی تک کوئی ایک بھی بیان جاری نہیں کیا۔

متحدہ عرب امارات نے تو ان ممالک سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے بظاہر بھارت کا ساتھ دیا۔ متحدہ عرب امارات کے مطابق کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں نہ صرف سعودی عرب بلکہ بحرین کے رہنماؤں سے بھی رابطہ کرتے ہوئے مدد کی اپیل کی تھی لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان ممالک نے عمران خان کو کیا جواب دیا تھا۔

دریں اثناء سعودی عرب نے ابھی تک کشمیر میں فوجی کرفیو یا کمیونیکیشن بلیک آوٹ کے حوالے سے کوئی براہ راست بیان جاری نہیں کیا۔ صرف یہ کہا گیا ہے، ”سعودی عرب موجودہ صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اس کا پرامن حل چاہتا ہے۔‘‘

خلیجی ممالک کی خاموشی کی ایک وجہ ان ممالک میں کام کرنے والے بھارتی شہری بھی ہیں۔ ان ممالک میں سات ملین سے زیادہ بھارتی شہری ملازمت کرتے ہیں، جن میں ڈاکٹر، انجنئیرز، اساتذہ، ڈرائیور اور مزدور شامل ہیں۔ سب سے زیادہ بھارتی متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں یو اے ای اور بھارت کے درمیان 50 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی اور اس طرح بھارت اس مسلمان ملک کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

متحدہ عرب امارات میں بھارت کی سرمایہ کاری تقریبا 55 ارب ڈالر ہے اور دبئی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری بھی بھارتی شہریوں کی ہی ہے۔ دبئی کا عالمی پورٹ آپریٹر ادارہ ڈی پی ورلڈ بھارتی زیرانتظام کشمیر میں لاجسٹک حب کا قیام بھی چاہتا ہے۔

بھارت میں متحدہ عرب امارات کے سفیر احمد البنا کا مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ”کشمیر میں تبدیلی سے سماجی انصاف اور سکیورٹی میں بہتری پیدا ہو گی۔‘‘

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ ‘گلف-انڈین تعلقات‘ کے ماہر حسن الحسن کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کشمیر میں ویسے تو سعودی عرب، ترکی اور ایران تینوں ہی اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن صرف ترکی ہی ابھی تک کشمیریوں کی کھل کر حمایت کرتا آیا ہے۔

ترکی کی بھارت کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم سات ارب ڈالر ہے لیکن اس نے اپنا سارا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ عمران خان اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کھل کر حمایت کی گئی ہے۔

ایران نے اپنے ملک میں صرف ایک علامتی سے احتجاج کی اجازت دی۔ تہران میں بھارتی سفارت خانے کے باہر احتجاج میں تقریبا ساٹھ طالب علم شریک تھے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے ایرانی صدر حسن روحانی سے اتوار گیارہ اگست کے روز ٹیلی فون پر بات کی۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور اسے سفارتی طریقوں ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ صدر روحانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران سمجھتا ہے کہ ‘کشمیر کے متنازعہ علاقے کے شہریوں کو قانونی حقوق اور پر امن زندگی کا حق حاصل ہونا چاہیے‘۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی طرف سے اتنا بیان بھی شاید اسی وجہ سے دیا گیا ہے کیوں کہ بھارت نے امریکی دباؤ کی وجہ سے ایرانی تیل خریدنا کم کر دیا ہے۔

ایران کے برعکس سعودی عرب میں تقریبا ستائیس لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں اور سعودی عرب عراق کے بعد بھارت کو خام تیل سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک بھی ہے۔

کشمیری نژاد امریکی پروفیسر اور جنوبی ایشیائی امور کی ماہر حفصہ کنجوال کے مطابق خلیجی ممالک اس وجہ سے بھی کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چپ ہیں کہ ان ممالک میں خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”کشمیر حق خود ارادیت کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور جمہوریت سے منسلک ہے۔ خلیجی ممالک اور اسرائیل نہ صرف اس کے بہت زیادہ خلاف ہیں بلکہ اس حوالے سے محتاط بھی ہیں۔‘‘
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).