پنجاب حکومت سن لے


اس ریاست نے ہم کوہستان کے باسیوں کو تعلیم، روزگار، اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا۔ اس ریاست نے اعلی یونیورسٹیز، میٹرو، ایکسپریس ویز، صحت کے مراکز، اور روزگارآپ پر نچھاور کردیے، سلام پیش کرتے ہیں اس ریاست کو ”ہم نہ سہی ہمارے بڑے بھائی“ کو تو ان کے حقوق مل رہے ہیں اور وہ راحت میں ہے۔

دہشت گردوں نے ہماری گردنیں کاٹیں، ہمارے خون کی ندیاں بہائی گئیں، ہمارے بچوں کو سکولوں کے اندر اور بزرگوں کو مسجدوں کے اندر بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ہر گھر سے کسی ایک نہ ایک کو لاپتہ یا تشدد کرکے معذور کردیا گیا۔ ادھر آپ آرام اور چین کی نیند سو رہے ہیں۔ ہم مزید خوش ہوئے کہ چلیں مملکت خداداد کا کوئی ایسا صوبہ بھی ہے جو پر امن ہے۔ اور ہم اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے، بوڑھے والدین کے کاندھوں پر مال مویشیوں کی رکھوالی اور کھیتی باڑی کا بوجھ ڈال کر آپ کے ہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ جب تعلیمی اخراجات ہمارے بس سے باہر ہوتے ہیں تو ہم اپنے اخراجات اٹھانے کی خاطر آپ کے ہاں نوکریاں کرتے ہیں۔ آپ کے بچوں کو سکول اور یونیورسٹیوں میں پک اینڈ ڈراپ کرتے ہیں، آپ کے گھر کے دہلیز پر آکر آپ کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔

ہم پہاڑوں کے باسی شدید موسم اور بے روزگاری کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور اپنے مال مویشی لے کر آپ کے ہاں دہقانی کرنے آتے ہیں۔ آپ کے گنے اور گندم کی فصلوں کی اُگائی سے لے کر کٹائی تک تمام تر ذمہ داری ہم جفاکش کوہستانیوں کے ذمے ہوتی ہے۔

اور بدلے میں آپ سرکاری طور پر عوام میں پمفلٹ تقسیم کرتے رہیں کہ ”خشک میوہ جات، قہوہ بیچنے والوں اور پگڑی والوں کو سیدھا تھانے حاضر کیا جائے۔“ مگر ہم پھر بھی خاموش رہتے ہیں اور دل پر پتھر رکھ کر آپ کی اس روش کو نظرانداز کرتے ہیں۔

آپ کے اسلام آباد میں چار مزدور بھائیوں کے خون پسینے کی کمائی سے میڈیکل میں پڑھنے والے امدادالرحمٰن کو قتل کرکے لاش جھاڑیوں میں پھینک دی گئی۔ ہم نے ہاتھ اٹھاکر،جھولی پھیلا کر انصاف مانگا۔ مگر آپ کی حکومت نے ایسی خاموشی اختیار کی کہ جیسے ہماری کوئی مرغی کا شکار تک نہیں ہوا۔

آپ کے پنڈی میں بحرین کے رکشہ ڈرائیور عبداللہ کو گولیوں کے وار کرکے چھلنی چھلنی کردیا گیا مگر ہم ابھی تک انصاف کے لئے آپ کا منہ تک رہے ہیں اور آپ خاموش؟

اس بار آپ کے پنجاب میں بوڑھے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے اور گھر کے واحد کفیل مسکین کو ہاتھ پاؤں سے باندھ کر، کلہاڑیوں کے وار کرکے بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ مقتول انصاف کی بھیک مانگتا رہا اور قاتل ویڈیو بناتے رہے تاکہ ہم کوہستانیوں کو یہ دکھا سکیں کہ ہم کتنے طاقتور ہیں اور ہم اس ویڈیو کو وائیرل کرکے اس سٹیٹ کو بھی چیلنج کرسکے کہ ”ہے کس کی مجال“ جو ہم سے پوچھے؟

پنجاب حکومت کان کھول کرسن لے۔

اس بار صرف کوہستانیوں کو نہیں، بلکہ سفاک قاتلوں نے ویڈیو بناکر پورے پاکستان کو چیلنج کردیا ہے۔ ہم نے پے درپے اپنے نوجوانوں کے قتل پر بڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر ویڈیو میں موجود قاتلوں کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو ہم خود انصاف کی خاطر کھڑے ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔ کان کھول کر سن لیں۔ ہم کوہستانی جب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر پہاڑ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پہاڑوں کے آگے بند باندھنا آپ کے لئے مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).