چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں


بھادوں بڑا نرم و گداز سا مہینہ ہے۔ نہ گرمی سے دہکتا نہ سردی سے ٹھٹھرتا ہوا۔ نہ راتیں طویل نہ دن لمبے۔ برسات کی ہریالی پہنے ہوئے شاداب منظروں کا مہینہ۔ میری زندگی میں اس بکری مہینے کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ سو بھادوں طلوع ہوتے ہی یادوں کا ایک دبستان سا کھل جاتا ہے اس ملائم مہینے کی چاندنی راتوں میں دل اداسی کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔

یادش بخیر؛ 1996 ء میں یہی بھادوں کے دن تھے جب گاؤں سے ہجرت یقینی ٹھہری تھی تو زمین زاد اپنی روح اور اپنا دل گاؤں کی دہلیز پر ہی چھوڑ کر آیا تھا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ دھمی ویلے تانگے پر لاری اڈے روانہ کرتے ہوئے اماں نے اپنے دوپٹے کے پلو سے 50 روپے میرے کھیسے میں ڈالے تھے۔ کچھ الوہی کلام پھونک کر میرے اوپر دم کیا تھا اور ابا کے نام ایک رقعہ۔ ہجر کی کرلاہٹ اور اکیلے پن کے اکلاپے کے ساتھ وہ میرا پہلا تنہا سفر تھا۔

اس دور میں گاؤں کی پوتر فضا بجلی کی عیاشیوں سے آلودہ نہیں ہوئی تھی۔ بیرونی دنیا سے جانکاری اور تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ ریڈیو سیلون، آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کے دوش پر گونجنے والے سدا بہار نغمے ابھی تک دل و دماغ میں ہمکتے ہیں۔ 1996 ء میں ہی ہندوستانی فلم ”ماچس“ ریلیز ہوئی تھی، جس کا ایک گیت آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو سیلون پر تو کئی بار گونجا کرتا۔

آج جب بھادوں کی چاندنی رات ہے۔ نرم و ملائم ہوا وجود کو سہلا رہی ہے۔ ریڈیو پر بی بی سی اردو کو ٹیون کرتے ہوئے سوئی جانے کس اسٹیشن پر جا اٹکی کہ اس پر لگا عہد رفتہ کا وہی گیت آنکھوں میں سرود رفتہ کی نئی جوت جگا گیا اور مجھے 23 سال پیچھے لے گیا۔

جھوٹ کے تنگ بازار میں سچ کا گاؤں اوڑھے ایک بوسیدہ آدمی ابھی تک اس گیت کے شبنمی لفظوں کی قرات کر رہا ہے۔ گلزار کی شاعری، وشال بھردواج کی موسیقی سے مرصع اس انتظار گیت میں ملاپ مہکتا ہے۔ اور بچھڑی ہوئی اداس آنکھوں میں وصال مہکتا ہے۔

دل دریچے پر اٹکا ہوا وقت اور گلزار کی شاعری جو مدہم لالٹین کی طرح، دل کے دروازے پہ ٹنگی ہوئی ہے۔ وہ نگوڑا دل جو گاؤں کی ان گلیوں کو یاد کرتا ہے جنہیں میں 23 سال پیشتر چھوڑ آیا تھا۔

چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں
جہاں ترے پیروں کے
کنول گرا کرتے تھے
ہنسے تو دو گالوں میں
بھنور پڑا کرتے تھے
تری کمر کے بَل پر
ندی مڑا کرتی تھی
ہنسی تری سُن سُن کر
فصل پکا کرتی تھی
جہاں تری ایڑی سے
دھوپ اُڑا کرتی تھی
سنا ہے اُس چوکھٹ پر
اب شام رہا کرتی ہے
دل درد کا ٹکڑا ہے
پتھر کی ڈَلی سی ہے
اِک اَندھا کنواں ہے یا
اِک بند گلی سی ہے
اِک چھوٹا سا لمحہ ہے
جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں
یہ بھسم نہیں ہوتا

چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).