وزیر اعظم عمران خان: اقتدار کے 365 دن


اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قوم سے کئی وعدے کیے تھے۔ انتخابی جلسوں میں جب وہ عوام سے مخاطب ہوتے تو کہا کرتے تھے کہ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں سکونت اختیار نہیں کریں گے۔ وزیراعظم ہاؤس کویونیورسٹی اور گورنر ہاؤسزز کو کسی اور مفید کام کے لئے استعمال کریں گے۔ عمران خان وزیراعظم منتخب ہونے سے قبل اس عزم کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ وہ ایوان میں سوالوں کے جوابات خود دیں گے۔

عمران خان کو اقتدار میں آنے سے قبل گھمنڈ تھا کہ وہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ٹیکس جمع کریں گے۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے ان کوتوقعات تھیں۔ لیکن ڈیم فنڈ میں چندہ دینے کی اپیل پربیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے جو کچھ ان کے ساتھ کیا اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کو دوبارہ ان سے چندہ دینے کی اپیل کی ہمت نہیں ہوئی۔ ٹیکس جمع کرنے کے لئے بارباروزیراعظم عمران خان نے اپیل کی لیکن کسی کی فیکٹری، کاروبار، بینک اکاونٹس اور جائیداد پرجوں تک نہ رینگی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیکس جمع کرنے کا مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ تھا لیکن جس کے دماغ میں یہ انوکھا خیال آیا تھا اس کامل وجود کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے سیاسی جسم سے کاٹ کر پھینک دیا ہے۔ اس لئے اب ممکن نہیں کہ پچاس لاکھ گھر بن سکیں گے یا ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں مل جائیں گی۔ ممکن ہے کہ پچاس لاکھ میں سے پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار گھر مکمل ہو جائیں اس لئے کہ چار سال مزید پڑے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا نعرہ بھی اسی انقلابی نے لگایا تھا جس نے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑنوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ نہیں رہے اس لئے ہر مہینہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ کر رہی ہے۔ معاشی استحکام اور سول سروس میں اصلاحات کی پٹاریاں تاحال کھل نہ سکیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے سب بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے پارلیمنٹ کوغیرمؤثر کردیا۔ کئی مہینے تک چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کے تقرر پرحزب اختلاف کے ساتھ الجھے رہے۔ باربارایوان میں اعلان کیا گیا کہ کرپشن میں ملوث شخص کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے کا مطلب ہو گا کہ بلی کو گوشت کی چوکیداری پر مامور کیا جائے۔ کئی مہینوں کی کشیدگی کے بعد اسی بلی کو نامزد کیا لیکن ملک اور قوم کا بہت سارا وقت اور پیسہ برباد کرکے۔ ایوان کی زیادہ تر کارروائی حکومت اور حزب اختلاف کے شورشرابے کی نظرہوئی۔ ”نونو،“ ”گوگو،“ ”چور چور،“ ”نیازی صاحب“ اور ”سلیکٹڈ“ وغیرہ جیسے نعرے ایوان کے درودیوار سے ٹکراتے رہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود پارلیمنٹ میں سوالوں کے جوابات دینے کا عہد کیا تھا لیکن وہ صرف چودہ اجلاسوں میں شریک ہوئے۔

وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان نے دوسری بڑی غلطی یہ کی کہ انھوں نے حکومت غیر منتخب لوگوں کے حوالے کی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو ہٹا کر ان کی جگہ غیرملکی، پرانے پرزے، عبدالحفیظ شیخ کو نامزد کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جگہ غیر منتخب خاتون ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا تقرر کیا۔ اسٹیٹ بینک جیسے اہم ادارے کو بین الاقوامی مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمائندے ڈاکٹر باقررضا کے حوالے کیا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) جیسے اہم ادارے کو غیر سنجیدہ شخص شبر زیدی کے سپرد کیا۔ احتساب جیسے حساس اور اہم شعبہ کو غیر منتخب، میڈیا کے شوقین اور الزامات کے ماہر شہزاد اکبر کے حوالے کیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے اہم ادارے کو غیر منتخب خاتون ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے ذمہ لگایا۔ وزیراعظم ہاؤس کاتمام انتظام غیر منتخب افراد نعیم الحق، افتخاردرانی اور یوسف بیگ مرزا جیسے نابغوں کے سپرد کیا۔ وزیراعظم عمران خان احتساب کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے لیکن ایک سال مکمل ہو جانے کے بعد بھی ان کی حکومت کسی کرپٹ پر ایک بھی مقدمہ دائر نہ کرسکی۔

اس ایک سال کے اقدامات سے معلوم ہورہا ہے کہ احتساب محض ایک نعرہ تھا۔ حزب اختلاف کے جتنے بھی رہنما اس وقت پابند سلاسل ہیں وہ تمام پرانے مقدمات میں مقید ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں یکساں نظام اور یکساں نصاب تعلیم وزیراعظم عمران خان کا نعرہ تھا مگر ایک سال گزرنے کے بعد بھی معلوم ایسے ہورہا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ صحت کا شعبہ بھی وہیں پر ہے جہاں پر پہلے والے چھوڑ چکے تھے۔ دیہی معیشت کو سہارا دینے کے لئے مرغیاں، کٹے اورکٹیاں دینے کا اعلان کیا گیا تھامگر افسوس کہ دوبارہ کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی اور یہ منصوبہ فائلوں میں دفن ہوکررہ گیا۔

خارجہ محاذ پرافغانستان میں عبوری حکومت کا مشورہ وزیراعظم عمران خان نے دیا تھا لیکن افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس تجویز کو مسترد کیا جبکہ دوسرے فریقین امریکا اور افغان طالبان نے ابھی تک کوئی بھی رائے نہیں دی۔ بھارت میں انتخابات میں کامیابی کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کی وجہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بیان کی کہ نریندرمودی کا اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں آسانی ہوگی۔

لیکن نریندرمودی نے انتخابات میں کامیابی اور دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو اس حد تک مشکل میں ڈال دیا ہے کہ اب وہ بھرے ایوان میں قائد حزب اختلاف سے پوچھ رہے ہیں کہ ”کیا میں بھارت پر حملہ کردوں؟“ کرتار پور راہداری پر غیر ضروری تیزی دکھائی گئی جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) پر کام کی رفتار سست رہی۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں آئی جس کی امید وزیراعظم عمران خان قوم کو دلا چکے تھے۔ دورہ امریکا سے توقعات تھیں کہ واشنگٹن، اسلام آباد کی امداد بحال کر دے گا لیکن ابھی تک وہاں سے نا ہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس ایک سال میں چند اقدامات ایسے بھی کیے کہ جس کی ستائش ضروری ہے۔ ”احساس پروگرام“ کا آغاز کیا۔ ”صحت انصاف کارڈ“ کا اجرا کیا۔ ”پلانٹ فار پاکستان“ مہم شروع کی۔ یہ تمام اچھے اقدامات ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں یا مرغی پال پروگرام کی طرح الماریوں میں بند ہو کر دم توڑ جائیں گے۔ اس کے لئے اگلے سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اہلیان پشاور کو امید تھی کہ بی آر ٹی منصوبہ پہلے سال مکمل ہو جائے گا لیکن تاحال یہ منصوبہ ادھورا ہے۔ اسی طرح سوات موٹروے کے بارے میں بھی عوام پرامید تھی کہ اس ایک سال میں نہ صرف یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا بلکہ اگلے مر حلے پر کام بھی شروع ہو جائے گا، لیکن یہاں بھی صرف خواب ہی رہے تعبیر نہ ملی۔

نوٹ: یاد رہے کہ اس مضمون میں صرف ایک سال کی چند غلطیوں کا تذکرہ ہے۔ اسے وزیراعظم عمران خان کی ناکامیوں سے ہرگز تعبیر نہ کیا جائے اس لئے کہ کامیابی یا ناکامی کا تعین کرنے کے لئے ابھی چار سال پڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).