بے گھر نے اچھا سا گھر لے لیا


 \"alia-shah\" ایک ایڈز زدہ خواجہ سرا کا جنازہ ایک پاکیزہ برگزیدہ مولوی کیسے اور کیونکر پڑھا سکتا ہے؟

 کیا اس سے اس کا ایمان خراب نہیں ہو گا؟

کیا اس پر اللہ کا غضب نازل نہ ہو گا؟

کیا اس کے رتبے میں کمی نہ آجائے گی کہ علاقے کی معروف شخصیات کا جنازہ پڑھانے والے مولوی صاحب ایک ایڈز زدہ گناہگار خواجہ سرا کا جنازہ پڑھائیں۔ ۔توبہ توبہ۔ بس یہی وجہ ہوئی کہ دیوانی کی میت تیار ہے لیکن جنازہ پڑھانے کو مولوی دستیاب نہیں۔ کیونکہ دیوانی ایڈز کی بیماری میں مبتلا تھی اور ایک ایسی راندہ درگاہ مخلوق سے تعلق رکھتی تھی جسے ہم عرف عام میں خواجہ سرا کہتے ہیں۔

دیوانی کی چارپائی گھر سے نکال کر باہر سڑک پر کوڑے کے ڈھیر کے پاس رکھ دی گئی۔ کیونکہ دیوانی کو ایڈز ہو گئی تھی۔ چوبیس سالہ ہڈیوں کا ڈھانچہ دیوانی ایک اذیت ناک زندگی کے بعد ایک اذیت ناک انجام کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کی اپنی برادری نے اسے عاق کر دیا تھا۔ اگر کوئی اس کے قریب آتا بھی تو ناک پر کپڑا رکھ کر کہ کہیں وہ بھی اس بیماری کا شکار نہ ہو جائے۔ جو لوگ چھپ کر اپنا گناہ کوڑے کے ڈھیر پر پھینک جاتے ہیں ہم ان کو برا کیوں کہتے ہیں۔ ہم نے تو ایک جیتے جاگتے انسان کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔

 صوبائی محکمہ صحت خیبر پختونخواہ جس نے اپنے بجٹ میں خواجہ سرا کی بہبود کے لئے دو سو ملین روپے تفویض کئے تھے وہ بھی اس دیوانی کو کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر ہسپتال تک نہ پہنچا سکے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس والوں نے ایڈز کی بیماری میں مبتلا خواجہ سراکو داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ آخر کار UNAIDS والوں نے دیوانی کو کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر ہسپتال داخل کرایا۔ وہی یو این والے جن کو ہم یہودی اور نصرانی ہونے کے ناتے اپنا دشمن پکارتے ہیں۔ انھوں نے کوڑے کے ڈھیر پر ایک مسلمان، ایک خواجہ سرا پڑا نہیں دیکھا۔ انھوں نے کوڑے کے ڈھیر پر ایک انسان کو پڑا دیکھا۔

تین دن کے بعد دیوانی نے دم توڑ کر مولویوں کو اس مشکل میں ڈال دیا کہ اب وہ اس کا جنازہ بھی پڑھائیں۔ دیوانی کے ساتھی کسی ایسے مولوی یا امام مسجد کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے جو ان کے ساتھی کا جنازہ پڑھانے پر تیار ہو جائے۔ ہمارا مذہب تو ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے تو پھر کوئی کسی کا جنازہ پڑھانے سے اس لئے انکار کیوں کر سکتا ہے کہ مرنے والا دوزخی یا گنہگار ہے۔

دوزخ اور جنت کا فیصلہ تو صرف رب کے پاس ہے۔ جن مولوی حضرات نے دیوانی کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا ، وہ خود جنتی ہیں یا دوزخی اس کا فیصلہ بھی تو رب ہی نے کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دیوانی کا جنازہ پڑھا کر جنتی بننے کے حقدار ٹھہرتے۔

ہمارے ماں باپ ہمیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ ہم کو پالتے پوستے ہیں۔  ہمیں تعلیم دلواتے ہیں۔ ہماری شادی کرتے ہیں۔ ہمارے ہر دکھ سکھ میں کام آتے ہیں۔ تو پھر ہم اپنے والدین، اپنے پیاروں کا جنازہ خود کیوں نہیں پڑھا سکتے؟

 ایک خواجہ سرا دوسرے خواجہ سرا کا جنازہ پڑھانے کا فریضہ خود کیوں ادا نہیں کر سکتا؟

 یہ کہاں لکھا ہے کہ نکاح اور جنازہ صرف مولوی ہی پڑھا سکتا ہے؟

مولوی صاحب کے فرائض میں کیا کیا شامل ہے؟

 نماز پڑھانا

قرآن پڑھانا

نکاح پڑھانا

جنازہ پڑھانا

کیا یہ سب فرائض ہم خود ادا نہیں کر سکتے؟

مولانا صاحب سے ہم اپنے جنازے واپس کیوں نہیں لے لیتے؟

مولانا صاحب سے ہم اپنے نکاح واپس کیوں نہیں لے لیتے؟

مولانا صاحب سے ہم اپنے بچے واپس کیوں نہیں لے لیتے؟

خواجہ سرا اپنا جنازہ خود کیوں نہیں پڑھا سکتے؟

کیا مولوی صاحب جس کا جنازہ نہ پڑھائیں وہ جنت میں جانے کا اہل نہیں؟

کیا مولوی صاحب جس کا نکاح نہ پڑھائیں اس کی شادی جائز نہیں؟

مولوی صاحب آپ نے تو دیوانی کا جنازہ نہیں پڑھایا لیکن اس کی ماں جہاں بھی ہو گی اس کی قبر کو دیکھ کر کہتی ہوگی، بے گھر نے اچھا سا گھر لے لیا۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments