ارینجڈ میرج: سلیکشن سے ایکسٹینشن تک


ارینج میرج بھی کمال ہوتی ہے۔ جس میں رشتہ والدین تلاش کرتے ہیں، جہیز میں کیا دینا کیا لینا ہے، کھانا کیا پکے گا، قاضی کون ہوگا؟ بارات کیسے اور کتنے بجے آئے گی، نکاح کب ہو گا؟ مہر کتنا طے ہو گا، لڑکی کا سر پکڑ کر تین بار کون ہلائے گا اور ’قبول ہے، قبول ہے‘ کہتے ہوئے ہوا میں چھوہارے کون اچھالے گا؟ یہ سب دلہن کے بڑے ہی طے کرتے ہیں، لڑکے اور لڑکی کو صرف دولھا دلہن کا کردار نبھانا ہوتا ہے اور باراتیوں کی دعاؤں سلامیوں کے ساتھ رخصت ہونا ہوتا ہے۔ لڑکی رشتے سے انکار کرنے کا سوچے بھی تو اسے طرح طرح سے دھمکایا جاتا ہے، زندہ دفن کرنے کی بات کی جاتی ہے، پاکستان جیسے معاشرے میں یہ عام رواج ہے، یہ سماجی سطح پر بھی نہیں ہوتا سیاست میں بھی 72 سال سے یہی ہورہا ہے ہاں کبھی غلطی سے عوام ”لو میرج“ کر بھی بیٹھے تو سازشی اسے بہت جلد تڑوا دیتے ہیں۔

25 جولائی کو منگنی کے بعد 18 اگست کو ہونیوالی ”ارینج میرج“ تو سبھی کو یاد ہوگی۔ اس نے ”کامیابی“ سے ایک سال پورا کیا ہے، اس شادی کے حق میں جولوگ تھے وہ ابھی تک ساتھ ہیں لیکن جو مخالف تھے وہ ابھی تک ماتم کناں ہیں۔ لیکن یہ شادی کتنی کامیاب رہی ہے اس کا اندازہ سسرالیوں اور میکے والوں کی چیخوں سے لگایا جا سکتا ہے، حق مہر میں طے پانے والی شرائط پر عمل درآمد سے جانچا جا سکتا ہے۔ اس شادی کو کامیاب بنانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے۔ کس کس کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ دولہے کو مہندی لگانے والے، شہہ بالا تک کو نہیں بخشا گیا، بارات پر نوٹ لٹانے والے تک پریشان ہیں۔ پس پردہ نکاح میں ساتھ دینے والا کہتا ہے ”مجھے جیل والے بہت تنگ کرتے ہیں۔“

پاکستان کو مدینے کی طرز پر فلاحی ریاست بنائیں گے۔ بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔ اداروں میں میرٹ لایا جائے گا۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے گا (جس کا بہت کام پہلے ہوچکا تھا) ۔ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنا کر محروم علاقوں میں اقتصادی پیکیج دیا جائے گا۔ ایک کروڑ نئی نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔ خارجہ پالیسی میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ ملک بھرمیں درخت لگائے جائیں گے۔ کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ اداروں کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔ ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے گا۔ بجلی اور گیس کی قیمت کو کم کیا جائے گا۔ 50 لاکھ سستے گھر بنائے جائیں گے۔ نئے سیاحتی مقامات کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ وہ وعدے تھے جو نکاح کے چھوہارے ہوا میں اچھالنے سے قبل کیے گئے تھے۔ ان پر کتنا عمل ہوا آپ خود اندازہ لگالیں۔

یہ شادی کتنی مہنگی پڑی ہے؟ کچھ سرکاری اعداد و شمار میں بھی پیش کردیتا ہوں۔ اس وقت مجموعی اندرونی اور بیرونی قرضے 31 ہزار 800 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، 7600 ارب روپے اضافہ ہوا۔ صرف مقامی قرضے 17 ہزار سے بڑھ کر 21 ہزار 258 ارب روپے ہوچکے ہیں، بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر سے بڑھ کر 105 ارب ڈالر تک ہوچکے ہیں، روپے کی قدر کم ہونے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے 42 فیصد قرض بڑھے۔ ایک سال میں 1200 ارب روپے کمرشل بینکوں سے قرضہ لیا، ایک سال میں روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی آئی، زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالرز ہیں، سٹیٹ بینک کے ذخائر 7 ارب 72 کروڑ ڈالرز ہیں، نجی بینکوں کے پاس 7 ارب 27 کروڑ ڈالرز ہیں، ترقی کی شرح آدھی رہ گئی، گزشتہ سال جون میں گروتھ ریٹ 5.3 فیصد تھا جو رواں ماہ 3 فیصد کے درمیان ہے، بیرونی سرمایہ کاری 3 ارب 10 ارب ڈالر تھی اب 1 ارب 60 کروڑ ڈالرز ہے، ایک سال پہلے شرح سود 5.75 تھی اب 13.25 فیصد ہوگئی ہے۔ مہنگائی کی شرح 7 سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 2021 تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔

اگر اس کے مخالفین، تنقید کرنیوالوں کی حالت دیکھیں تو وہ بہت بری نظر آتی ہے۔

ایک سال مکمل ہونے پر دولہا بظاہر اطمینان میں نظر آتا ہے اور اس کے اطمینان کی بڑی وجہ مخالفین میں اتحاد کا فقدان ہے یا دلہن کے مسائل سے عدم دلچسپی ہے۔ زبانی طور پر بڑے بڑے دعوے کرنے والی اپوزیشن میں وقفے وقفے سے اختلاف نظر آتا رہتا ہے، چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک اعتماد میں ناکامی میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، ضمیر فروشوں کا سراغ لگانے کی بات کی تھی، اس کاوش کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں آیا۔ اے پی سی پر اے پی سی کھیلی جا رہی ہے لیکن اس کا نتیجہ صفر ہے۔ یہ بیماروں کی فوج اور بکریوں کا ریوڑ بن چکے ہیں، کسی کی کمر میں درد ہے تو کسی کا دل خراب ہے، کچھ تو ایسے ہیں جن کا جی کچا کچا لگتا ہے۔ کچھ کو ”دلہن“ کی آہ وزاری سے زیادہ صحت افزا مقام پر جانا زیادہ اہم لگتا ہے۔ دلہن چیختی رہے چلاتی رہے ان کی صحت پر اثر نہیں پڑنے والا۔

بات دلہن کی ٹینشن سے ایکسٹینشن تک پہنچ چکی ہے۔ شادی کے اگلے سال کے پہلے دن ہی مبارک فیصلہ کیا گیا۔ جس پر سب واہ واہ کررہے ہیں، فیصلہ کرنیوالے کی دور اندیشی کو داد دی جا رہی ہے، اسے ایک بڑا اور اہم فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے، میری بھی دعا ہے کہ یہ صحیح فیصلہ ہو، امید ہے کہ دور رس نتائج نکلیں گے۔ معیشت مضبوط ہوگی، دشمن کو واضح پیغام جائے گا کہ ”ہم ایک ہیں“ تم ہمارے کشمیر سے بھاگ جاؤ۔

وہ امریکہ ہو، افغانستان ہو، بھارت ہو، ایران ہو، مشرق وسطیٰ کے ممالک ہوں سب کو پتا لگ گیا ہے کہ ”ہم ایک صفحے پر ہیں۔“ ملک صاف اور شفاف ہوجائے گا ایسے شفاف جیسے ڈٹرجنٹ سے برتن۔ میرے جیسے ہر خیر خواہ کی دعا ہے کہ اللہ کرے یہ رشتہ قائم رہے، سدا خوشیاں رہیں۔ لیکن کچھ بدخواہ کہتے ہیں کہ ایکسٹینشن کے بعد ”دولہا“ تبدیل کردیا جائے گا۔ بدخواہوں کے منہ میں خاک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).