کشمیر کو عالمی عدالت میں لے جانا سنگین غلطی ہو گی


یہ بات اب تک محاورتاً ہی مشہور تھی کہ ایک صبح اٹھے تو دیکھا کہ دنیا ہی بدل چکی تھی لیکن مقبوضہ کشمیر کا حالیہ منظر نامہ ہمارے لئے کچھ ایسا ہی چونکا دینے والا پیغام لایا ہے۔ بی جے پی کے دماغ امیت شاہ نے بیک جنبش کشمیر کی ستر سالہ حیثییت کو ختم کردیا اور پاکستان باوجود سر توڑ کوششوں کے بھارت کے لئے حقیقی معنوں میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر پایا۔

برادر عرب اسلامی ممالک اور چین پاکستان کی سفارتکاری میں ہمیشہ قابل فخر مقام رکھتے رہے لیکن اس مسئلہ پر چین کے سوا کوئی ملک ہمارا ساتھ دینے کے لئے کھڑا نہیں ہوا۔ اسلامی کانفرنس بھی ”اوہ آئی سی“ کہنے تک ہی محدود رہی۔ دیگر ممالک سے وزیراعظم صاحب نے دفتر سے بیٹھ کر فون کرنے اور بیڈ روم میں لیٹے لیٹے ٹویٹس پر ہی توجہ دلانے کی ذمہ داری نبھائی۔ سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس میں چین کی بھرپور کوششوں کے باوجود مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا کیونکہ وہاں بھی پاکستان کا صرف ایک ہی حمایتی تھا۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو پاکستان سفارتی محاذ پر اب تک ناکام ہی رہا ہے۔ شاید اسی سبکی کو مٹانے کے لئے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا اعلان کیا گیا۔

اول تو امید ہے کہ پاکستان میں موجود ممتاز ماہرین عالمی قوانین حکومت پاکستان کو اس عمل سے باز رہنے کا مشورہ ہی دیں گے لیکن اگر پھر بھی معاملہ عالمی عدالت انصاف میں جاتا ہے تو یہ کشمیر کاز کے حوالے سے ایک سنگین غلطی ہوگی جس کا ناقابل تلافی نقصان ہونا ہے۔

انسانی حقوق کا مسئلہ کم و بیش ہر ترقی پزیر ملک میں موجود ہے۔ بھارت کے لئے یہ مسئلہ کشمیر میں ہے تو چین کے لئے زنجیانگ میں ہے۔ ترکی کردوں پر سختی برتنا اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔ مصر کے لئے اخوان المسلمین کے کارکنان ناقابل برداشت ہیں۔ بنگلہ دیش بھی بہاریوں کو انسانی فہرست میں شامل کرنے پر تیار نہیں۔ مشرقی یورپی ممالک نے بھی عرب مہاجرین کی آمد پر کھل کر مخالفت کی۔ معذرت کے ساتھ پاکستان میں بھی بلوچی اور پختون خواہ کے قبائلی علاقوں کے ساتھ معاملات اتنے قابل ذکر نہیں۔

دراصل ترقی پذیر ممالک کا ترقی یافتہ سانچے میں ڈھلنے کی راہ میں بنیادی طور پر دو ہی رکاوٹیں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ ایک جمہوری تسلسل اور دوسرا انسانی حقوق۔ ان دونوں حساس عناصر کو ہمیشہ ریاستی جبر اور سماجی جمود کا چیلنج درپیش رہا ہے۔ ان کے طے شدہ معیار تک پہنچنے کے لئے کم از کم حکمران طبقہ اتنی آسانی سے قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔

اس جدل کا ادراک عالمی اداروں اور ترقی یافتہ اقوام کو بخوبی ہے۔ اس لئے عالمی فورمز ان مسائل پر ایک متوازن رائے رکھتے ہیں۔ عمومی طور پر انسانی حقوق کی پامالی کے کیسز اس ملک کی علاقائی سالمیت کے بار تلے دب جاتے ہیں۔ چنانچہ محض شور ہی مچایا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے خلاف کسی بھی اقدام کی راہ میں عالمی طاقتوں کے وابستہ مفادات بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں چین کی زنجیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی کے متعلق رپورٹ کو بائیس ممالک نے مسترد کر کے سرد خانے کی نذر کردیا۔ ان بائیس ممالک میں پاکستان پیش پیش تھا۔

فرض کر لیتے ہیں کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا کیس لے کر پہنچ جاتا ہے۔ تو پہلا نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ کیا عالمی عدالت اس کیس میں کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے؟ عالمی عدالت کا کردار ملکی عدلیہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کے دو ہی بنیادی کام ہیں۔ پہلا، سلامتی کونسل کے لئے قانونی مشاورت فراہم کرنا اور دوسرا مصالحت کروانا وہ بھی اس صورت میں کہ جب متحارب ممالک راضی ہوں۔

یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کے متعلق انسانی حقوق کے کیس میں اتنی جان ہے کہ بھارت کو مجبور کیا جا سکے؟ اس کا جواب شاید نہیں ہے۔ کیونکہ بھارت نے سلامتی کونسل کی حد تک یہ بات ثابت کی ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہی موقف عالمی عدالت انصاف میں بھی دہرایا جائے گا۔

اگر پاکستان عدالت میں بھارت کے اندرونی معاملے کو چیلنج کرتے ہوئے کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ایک متنازعہ خطہ قرار دینے کی دلیل دیتا ہے تو کیا پاکستان عالمی عدالت کو اس امر کی بھی یقین دہانی کرا سکے گا کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے فوجیں واپس بلوا لے گا تاکہ ان پر عملدرآمد کروایا جا سکے اور وہ بھی ان حالات میں۔ اگر عالمی عدالت انصاف اس مسئلے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر سرزنش کرتی ہے تو پھر بھی پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں لگنا۔ بھارت اپنے حق میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر جشن منائے گا اور اس فیصلے کو سیدھا سلامتی کونسل کی میز پر دے مارے گا۔ نتیجہ، پاکستان کشمیر پر سفارتی کے ساتھ ساتھ قانونی جنگ بھی ہار جائے گا۔

فرض کرلیتے ہیں کہ عالمی عدالت پاکستان کا موقف تسلیم کرکے بھارت کو انسانی حقوق کی پامالی پر سرزنش کرتی ہے تب بھی تو بھارت کا حق تسلیم کرلیا جائے گا۔ علاوہ ازیں کشمیر میں جاری پاکستان کے حق میں نعرے بازیاں اور جلسے اور خود پاکستان کا ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا سرکاری سطح پر لوگو بنا کر پیش کرنا بھارت کی اس دلیل میں وزن پیدا کرنے کے لئے کافی ہوگا کہ کشمیر میں چند ”دراندازوں“ کی وجہ سے سختی روا رکھی جارہی ہے۔

چنانچہ یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانا کسی بھی صورت میں دانشمندی نہیں۔ اس سے ہمارا کشمیر پر موقف کمزور ہی پڑے گا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں سے کسی صورت پیچھے نہ ہٹے اور سلامتی کونسل کو مستقل و غیر مستقل اراکین کو اعتماد میں لینے کا سلسلہ جاری رکھے تاکہ کشمیر کیس عالمی ایوانوں میں مسلسل گونجتا رہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔

بھارت کے کشمیر کو یونین کے تحت لانے میں پاکستان کو اب کم از کم یہ فائدہ تو حاصل ہوگیا کہ اب بھارت کے پاس کشمیر کی انتظامی کمزوری کا بہانہ نہیں رہا۔ وہاں ہونے والی کسی بھی بحرانی کیفیت کا ذمہ دار براہ راست بھارت ہی کہلائے گا۔ پاکستان عالمی سطح پر اس الزام تراشی سے آزاد ہوگیا۔ اور اس فائدے کو اپنے حق میں بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).