جنرل باجوہ کی توسیع اور نازک حالات کی تاویل


وزیراعظم پاکستان عمران خان دیار غیر میں ہوں یا وطن میں کہیں بھی گفتگو کا موقع ملے تو اپنی بات کا آغاز مدینہ کی ریاست سے کرتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست کے اوصاف بیان کرنے چاہیے اور اُن پر عملدرآمد بھی کرنا چاہیے۔

مدینہ کی ریاست ہی ہوتی ہے حضرت ابوبکر خلیفہ اول ہوتے ہیں دمشق کی جنگ کے دوران مدینہ میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتقال ہو جاتاہے اور حضرت عمرؓ خلافت کا منصب سنبھالتے ہیں۔ دمشق کی جنگ کے دوران ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓکے نام ایک مکتوب روانہ کر دیا تھاجس میں خالد بن ولید ؓ کے کمانڈر آف چیف کی حیثیت سے معزولی کے احکامات تھے اور ان کی جگہ ابو عبیدہ ابن جراحؓ کو عہدہ سنبھالنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ابو عبیدہ ؓ اس حکم سے بہت رنجیدہ ہوئے مگرچونکہ امیر المومنین کا حکم تھالہذا تعمیل لازم تھی۔ جب یہ بات حضرت خالد بن ولید ؓ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے جس رد عمل کا اظہار کیا اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ خالد بن ولید ؓ وہ جرنیل تھے کہ جس جنگ میں شریک ہوتے اس پر فتح کی مہر ثبت ہو جاتی، ان خالدؓ سے جب کہا جا رہاتھاکہ آپ کو مسلم لشکر کی قیادت سے معزول کرکے ایک سپاہی بنایا جا رہا ہے تو اس مجاہد اور غازی کا مقام دیکھئے کہ فرماتے ہیں کہ ”اگر عمر ؓکے لئے لڑتا تھا تو اب نہیں لڑوں گا لیکن اگر اللہ کے لئے لڑتا تھا تو اسی طرح ایک سپاہی کی طرح لڑوں گا“۔

عمر فاروق ؓ نے اس حکم نامہ پر وضاحت پیش کی کہ لوگوں کو شاید یہ شک ہونے لگا تھا کہ فتح خالد ؓ کی وجہ سے ہوتی ہے، لوگوں کا توکل کمزور ہو رہا تھا اس لئے میں نے یہ قدم اٹھایا ورنہ میرے دل میں خالد ؓ کا وہی مقام ہے جو رسول اللہ ﷺ کے دل میں تھا۔ خالد بن ولید ؓ کے حوالے سے جنگ یرموک تاریخ میں معرکہ آرا جنگ کے نام سے یاد جاتی ہے۔ عین جنگ کی حالت میں کمانڈر انچیف بدلنے سے مسلمانوں کو جنگ میں شکست نہیں ہوئی بلکہ اللہ نے ان کے مقدر میں شاندار فتح لکھ دی۔

جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دیتے وقت یہ دلیل دی گئی کہ ریجنل سیکیورٹی معاملات کی وجہ سے ایسا کرنا ضروری تھا۔ جنرل باجوہ پیشہ ور فوجی افسر ہیں۔ خطے میں بالعموم اور بالخصوص پاکستان میں باجوہ ڈاکٹرائن کامیاب رہی۔ جب وہ آرمی چیف بنے تو انھوں نے دہشتگردوں کے خلاف اپریشن رد الفساد شروع کیا جو کامیاب ہوا۔

کہا جا رہا ہے کہ جنرل باجوہ کا مدت ملازمت میں توسیع لینے کے بعد دوسرے سئنیر جرنیلوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا پہلے دو سئینر جرنیلوں میں سے ایک کو جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف اور دوسرے کے لیے وائس چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ بحال کیا جا رہا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل شاید عزیز اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں لکھتے ہیں کہ آرمی چیف کے ہوتے ہوئے وائس چیف کا عہدہ ایک سٹاف افسر جیسا ہوتا ہے۔ کہنے کو تو وہ فور سٹار جرنیل ہوتا ہے مگر اصل طاقت آرمی چیف کے پاس ہوتی ہے۔ وائس چیف کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کور کمانڈروں کی کانفرنس بلائے۔

پاکستان کی عسکری تاریخ میں پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ کسی سپہ سالار کی مدت ملازمت میں تین ماہ قبل توسیع کا اعلان کرنا پڑا اس سے پہلے ایسا ہو چُکا ہے 1990 ء سے 1993 ء تک کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں تھی۔ جنرل اسلم بیگ اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے درمیان دوسرے امور کے علاوہ خلیج کی جنگ میں فوج بھیجنے کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوئے۔ یہ اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ ان اختلافات کے پیش نظر یہ قیاس آرائیاں بھی ہونے لگیں کہ جنرل بیگ ملک میں مارشل لاء لگانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے تین ماہ قبل جنرل آصف نواز کو نیا آرمی چیف نامزد کر دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے جنرل باجوہ کو توسیع دے کر اُن پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم اُن کے ساتھ کام کرتے ہوئے کمفرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں دونوں کے درمیان زبردست ذہنی اہم آہنگی ہے۔ ایک ٹیم بن گئی اگر یہ ٹیم مُلک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی تو واہ واہ بصورت دیگر تاریخ اپنا فیصلہ کرنے میں تامل نہیں کرتی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui