تیس سالہ خاتون سے شادی کے لئے تیار 22 سالہ لڑکے مگر کیوں؟


میری ایک دوست ہے جو تیس کی دہائی پار کر چکی ہے، ابھی شادی نہیں ہوئی۔ کچھ دن قبل اس کی والدہ سے ملی تو کہنے لگیں کہ ”سوشل میڈیا پر اب تو سنا ہے شادی رشتے کروانے کے لئے بہت سے گروپ موجود ہیں تو بیٹا تم میرا سوشل میڈیا پروفائل لے کر اس کے لئے کسی گروپ میں رشتہ تو ڈال دو، مجھے تو سوشل میڈیا کا استعمال نہیں آتا۔“ میں نے حامی بھر لی۔ اب میری دوست کے پروفائل میں اس کی تمام تر لیاقت بھری خوبیوں کے ساتھ جو ایک اہم چیز موجود ہے وہ اس کی بیرون ملک کی نیشنلٹی ہے کیونکہ وہ ایک بہت ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوئی اور یہ شہریت اس کا اثاثہ بن گئی۔

اب رشتہ پوسٹ کر کے جو رسپانس آئے ان میں بائیس سالہ لڑکوں کے رشتے تک موجود تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عام حالات میں ایک تیس سال سے بڑی لڑکی کے لئے کم عمر رشتے کم ہی آتے ہیں (یہ ایک علیحدہ تلخ موضوع ہے ) مگر ان لڑکوں اور ان کے گھر والوں سب کا کہنا تھا کہ بس لڑکی ہمیں ساتھ اس ترقی یافتہ ملک لے جائے اور وہاں بسا لے ہمیں کچھ اور نہیں چاہیے۔

میں نے ایسے ہی ایک لڑکے سے سوال کیا کہ کیا تم محض اس کی نیشنلٹی کی وجہ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو کہنے لگا کہ ”ظاہر ہے ورنہ بیشتر مردوں کی طرح میں بھی کم عمر لڑکی اپنانا چاہتا ہوں۔ میں تو محض اپنے گھر والوں کے بہتر مستقبل کے لئے آپ کی دوست سے شادی کروں گا۔“ اس کی صاف گوئی تکیف دہ حد تک واضح اور تلخ تھی۔

انٹرنیٹ پر میری ایک آسٹریلین دوست ہے۔ وہ عمر میں کوئی ساٹھ کے نزدیک ہو گی۔ اس سے ایک پاکستانی تیس کے پیٹے میں موجود شخص نے شادی کی، وہاں پر اس کے برتن تک دھوتا رہا مگر جوں ہی نیشنلٹی ملنے کا وقت نزدیک آیا اس کا رویہ بدلنے لگا اور اسے میری دوست کے شراب پینے اور دیگر مشاغل پر شدید اعتراض شروع ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد میری دوست پر انکشاف ہوا کہ اس کی تو پاکستان میں ایک بیوی پہلے ہی موجود تھی۔ اس شخص نے ہمیشہ اس خاتون کو پاکستان لے جا کر اپنے گھر والوں سے ملوانے میں حیل و حجت سے کام لیا، اس خاتون کو کچھ شک گزرا تو اس نے اپنے شوہر کی فون کالز ریکارڈ کر کے مجھے ترجمان کے طور پر سنوائیں جن سے صاف طور سے واضح ہو گیا کہ اس کی ایک بیوی پاکستان میں بھی موجود تھی۔ میری دوست کا دل بھی ٹوٹا اور وہ ہماری قوم سے کسی حد تک متنفر بھی ہوئی مگر پھر بھی اس خاتون نے اس شخص کے نیشنلٹی کے کاغذات مکمل کروا کر ہی اسے طلاق دی۔

ایک پاکستانی ڈرامہ ”جیکسن ہائیٹس“ گزرا ہے جس میں پاکستانیون کے محض نیشنلٹی کے لئے بیرون ملک کسی بھی طرح کی خاتون سے شادی کر لینے کو بہت خوبی سے اور حقیقی طریقے سے اجاگر کیا گیا تھا۔ ابھی بھی آئے دن یہ خبریں آتی ہیں کہ بیرون ملک سے تعلق رکھنے والی خاتون پاکستانی مرد سے شادی کرنے پاکستان پہنچ گئی۔

شاید کسی کے معاشرتی مقام یا دولت اور حسب و نصب کی بنیاد پر شادی کرنا شادی کی ایک وجہ ہوسکتا ہو مگر عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے اس پدرسری معاشرے کے مرد جو اکثر خواتین کو پیر کی جوتی سمجھتے ہیں اپنے مطلب اور مقصد کے لئے ان کو سیڑھی بنانے کے لئے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر عمر شکل رنگت، سب باتیں جن پر لڑکوں کی مائیں بہنیں عام حالات میں سمجھوتا کرنے تک پر تیار نہیں ہوتیں بس ایک ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ تمام باتیں ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئے دہرے معیار کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔

ان سب مثالوں سے ہمارے ملک کی بدتر معاشی صورتحال کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور بدترین اخلاقیات کی بھی۔ پڑھے لکھے لڑکوں کے لئے بھی روزگار کے مواقع آئے روز سکڑتے جا رہے ہیں اور متوسط طبقے کا ہر شخص معاشی تنگدستی کی چکی میں پس رہا ہے۔ دوسری طرف ایک پڑھی لکھی لڑکی کو صرف اس کی شخصیت یا ذاتی خوبیوں کی بنا پر رشتہ اس وقت تک نہیں ملتا جب تک کہ اس کے پاس دینے کے لیے جہیز یا لڑکے کو معاشی استحکام دینے کے لئے کچھ موجود نہ ہو۔

اس بڑھتی ہوئی آبادی والے ملک کی معیشت اور اخلاقیات دونوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے وگرنہ یہ سانپ سیڑھی کا کھیل بہت بڑھ جائے گا۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim