بدتمیز: جمال ابڑو کا سلگتا ہوا سندھی افسانہ


(سندھی افسانے کا اردو ترجمہ: تحریر: جمال ابڑو،  ترجمہ: یاسر قاضی)

میں میجسڻریٹ ہوں۔ پیسے والا ہوں، اچھا کھانے پینے اوڑھنے پہننے والا اور کچھ اثر و رسُوخ والا بھی۔ میری بچّی بیمار ہو گئی۔ سورج غرُوب ہو رہا تھا، دوڑتا ہوا ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔

ڈاکٹر صاحب کی کمائی کا سیزن تھا، اس لیے اس کے مزاج ہی نہیں مل رہے تھے۔ ماتھے پر بَل، بات بات پر خفا خفا سے ہوئے جا رہے تھے۔ مریضوں کی پُوچھ پُوچھ اور اِن کی ڈانٹ پہ ڈانٹ۔ مُجھے دیکھ کر مسکرائے، ”تشریف لائیے جناب! “ تسلّی دیتے ہوئے بولے، ”ابھی چلتے ہیں!“

مجھے بھی جلدی نہیں تھی، بیٹھ گیا۔ میں نے کہا، ”آپ بھلے کام نمٹا لیں!“

ایک بیل گاڑی اپنے پہّیے کی چِیں چاں کی آواز میں بولتی ہوئی کلینک کے باہر آکر رُکی۔ بُھوسے کی تِیلیوں پر، پَھٹی پُرانی تار تار، رَلّی میں ایک بیچارہ بیمار خود میں لپٹا ہوا پَڑا تھا۔ اُس کی بیوی اسے، اپنے سہارے، بیل گاڑی سے کلینک کے اندر تک لے آئی۔ تھا تو ادھیڑ عمر کا مگر جیسے اُس میں کھڈے پڑ گئے تھے۔

سردیاں تھیں اور ٹھٹھرتی شمالی ہوا لگ رہی تھی مگر اس کی قمیص کے بٹن تک نہیں تھے۔ اُس کی پسلیاں گوشت سے خالی تھیں، جیسے بس ہڈّیوں پر گوشت کا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ سردی سے بچنے کے لیے۔ اللہ پاک کی عنایت کا کُھلا اظھار۔ اُسے بہت اضطراب تھا، بے چینی تھی۔ اس کی زبان تالو سے لگ رہی تھی،
”ڈاکٹر صاحب آگ! “

ڈاکٹر نے بھی اس کی طرف کچھ توجہ دی۔ اور کہا: ”سوڈا پیو! “

عورت نے شوہر کی طرف دیکھا، اور شوہر نے بیوی کی طرف۔ بہت کچھ اس ایک گھڑی میں دونوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ عورت پر بھی جیسے کوئی سخاوت کا غلبہ آ گیا: ”ڈاکٹر صاحب، مِیٹھا سوڈا پی لے؟ “

ڈاکٹر کام میں مصروف تھا، بولا: ”جی! “

عورت نے پہنی ہوئی اپنی بڑی بلوچی قمیص کے سامنے لگی ہوئی چھوٹی سی مخروطی جیب میں سے دو تین آنے نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھے۔

عورت کی گود میں، صرف قمیص میں ملبوس بیمار کے ولی عہد نے، غُوں غُوں کرتے، پیشاب کر دیا۔ آس پاس چھینٹیں پھیل گئیں۔ بچّہ بھی رویا، ڈاکٹر بھی خفا ہوا۔ ناچار خاتُون باہر جا کر اپنی قمیص نچوڑ آئی۔

میٹھے سوڈے کا ذکر وہیں رہ گیا۔ کسی نے نہیں دُہرایا۔

مریض ایک کونے میں پڑا رہا۔ اُلجھی ہوئی داڑھی، خشک بال، اندر چُبھی ہوئی آنکھیں، وحشت سے بھرپور دُھواں دُھواں مُنہ۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے زندگی نے اپنی تمام کوششیں کر کے، ہاتھ پاؤں مار کے اپنی ہمّت ہار لی ہو۔ موت کے ڈھانچے کے ٹھنڈے پَنجے جیسے بڑھتے، بڑے ہوتے، اس کے کمزور جسم کو جکڑتے، نچوڑتے جا رہے تھے۔ اس کا معصوم بچّہ ہر بات سے بے نیاز زمین پر رینگتا، دفعتاً سیدھا آ کر اپنے ابّا کی ناک پکڑتا۔ جسے ماں بار بار پکڑ کر اُس سے دُور کرتی رہتی۔

ڈاکٹر نے مریض کا معائنہ کرتے ہوئے، اُس کے پیٹ کو مَسَل کر ساتھ ساتھ اس کی بیگم سے پوچھا: ”کیا ہوا ہے اِسے؟ “

”دسواں دن ہے، جگر کٹ رہا ہے۔ “

اپنے ہونٹ چُوستے ہُوئے، مٹھیاں بِھینچتے ہُوئے، انتہائی اذیّت کا اظہار کرتے ہوئے، مریض بولا: ”ایسی کوئی دوا دو، کہ جگر میں ٹھنڈک آ جائے!“

”سُوئی لگاؤں، سُوئی؟ “ ڈاکٹر نے خالصتاً بیوپاری انداز میں کہا، ”چار روپے لگیں گے۔“

بیمار نے اور اُس کی بیوی نے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں خاموش رہے۔ ڈاکٹر کو جواب مل گیا۔

اس نے نُسخہ لکھنا شروع کیا، عینک کے اوپر سے دیکھتے اس نے پُوچھا: ”کتنے دنوں کی دوائی چاہیے، سات دنوں کی کروں؟“

ڈاکٹر، عورت کی قمیص میں لگی چھوٹی جیب کی مَندی اچھی طرح سے بھانپ گیا تھا۔ ”چار دن کی کر دو!“ مریض نے خود سے کہہ دیا۔

ڈاکٹر نے نسخے پر کچھ لکھا اور وہ کاغذ کمپاؤنڈر کی طرف بھیج دیا۔

عورت نے دوائی لی۔ پیسے گِن کر، پھر گِنے۔ اپنی کُھلی ہوئی ہتھیلی اُڻھا کر کمپاؤنڈر کی طرف بڑھا دی۔ اس نے کم و بیش اس وقت، اس کے پاس موجود اس کی تمام پونجی اُچک لی۔ اس بے چاری عورت کے چہرے پر اعتراض، پھر منّت و سماجت اور آخر میں رونے جیسے آثار آ گئے۔ مگر انجکشن پھر بھی نہیں لگا۔

”ڈاکٹر صاحب، کھائے کیا؟“

”دُودھ، کشمش اور کینُو کا رس۔“

خاتُون بے چاری چپ ہو گئی۔ ”ڈاکٹر صاحب، کھچڑی کھا سکتا ہے! “

ڈاکٹر آگ بگولا ہو گیا: ”جو جی چاہے، کھا لے۔ تم لوگ باز نہیں آؤ گے، مَرے تو مرے، مگر چاول ضرور کھائے!“

عورت نے شوہر کو سہارا دیا۔ جو ہانپتا، کانپتا، کراہتا جا کر بیل گاڑی پر بِچھے اُسی بُھوسے کے بستر پر جا گِرا۔

انجکشن نہیں لگا، اور کھانے کے لیے مجھے تصوّر کی آنکھ سے انتہائی سادہ چاولوں کے دانے پانی میں اُبلتے ہوئے نظر آئے۔

بیل گاڑی چِیں چِیں کی آوازیں نکالتی روانہ ہو گئی۔ مِیٹھے سوڈے اور کینو کے رس سے دُور۔ اس عورت کا سرتاج، اس معصُوم بچّے کا باپ، اس ننھے نظامِ شمسی کا مرکز، اندھیرے میں غائب ہوتا گیا۔

ڈاکٹر میرے ساتھ چَلا۔ میری بچّی کا معائنہ کیا، آدھا پون گھنٹہ بیڻھا۔ انجکشن کیا، دوائیاں دیں، دوائیاں لکھیں بھی اور پھر باہر نکلا۔

میں اُس کے ساتھ اُسے تانگے تک رخصت کرنے آیا۔ دس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دیا۔ جو اس نے مُسکرا کر واپس کر دیا۔

”واہ صاحب، میں ایسا بدتمیز ہوں کیا؟“

تانگہ روانہ ہو گیا۔ پہّیے گھومتے گئے، گھوڑے کے پیروں کی ”ٹاپ ٹاپ “، تانگے کی ”کَھڑ کَھڑ “ اور بیل گاڑی کی ”چِیں چِیں۔ “ کی آوازیں مِل کر ایک ہو گئیں۔

”بدتمیز۔ بدتمیز۔ بدتمیز۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).