شجر کاری میں نئی سوچ کی ضرورت


یوں تو زندگی میں بہت سی ناکامیاں ایسی ہوتی ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے کام محض دکھاوے کے لئے ہی کیے جاتے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست ہر سال تسلسل کے ساتھ، سال میں دو بار شجر کاری مہم کا چلایا جانا ہے۔ اگر آپ اس کی افادیت دیکھیں تو شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے جو اس مہم کی افادیت سے انکار کر سکے۔ اس کے باوجود مطلوبہ اہداف کبھی حاصل نہیں کیے جا سکے۔ اگر اس کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو چند بہت ہی بنیادی چیزیں ہیں جنہیں درست کرنے سے آپ انقلابی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر آپ نے غور کیا ہو تو ہر سال ہر ضلع میں ڈی سی حضرات کو شجر کاری کے اہداف دیے جاتے ہیں۔ وہ احکامات آگے دیگر ضلعی محکموں کو منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اب تک ہر ضلع کے ہسپتالوں، سکولوں اور دیگر دفاتر کو جنگل کی شکل اختیار کر لینی چاہیے تھی۔ کہیں پہ بھی لیکن کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ سرکاری دفاتر محدود رقبے میں جتنی شجر کاری کر سکتے ہیں وہ پہلے سے کر چکے ہیں۔ اب سالانہ کی جانے والی مشق محض فوٹو شوٹ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

دوسری چیز مشاہدے میں یہ آئی ہے کہ شجر کاری مہم کے دوران زیادہ تر جلدی بڑھنے والے پودوں، جیسے کہ سفیدہ، کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حالانکہ ضروری یہ ہے کہ آپ مقامی پودوں کو ترجیحی بنیادوں پہ پھیلائیں۔ مقامی پودے ماحول سے بھی بہتر مطابقت رکھتے ہیں اور یقیناً زیادہ فائدہ مند بھی ہوتے ہیں۔ اگر ’ایلئین‘ پودے زیادہ مفید ہوتے تو یقین رکھیں کہ قدرت یہ کام آپ سے بہت پہلے ہی کر چکی ہوتی۔ کچھ پودے بہت آہستہ بڑھتے ہیں لیکن ماحول کے لئے ان کی افادیت بہت زیادہ ہے۔ پرندوں کی بھی مقامی پودوں سے پرانی آشنائی ہوتی ہے اور وہ ان پہ اپنا مسکن بنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

شجر کاری سے متعلق جناب وزیرِ اعظم اور مشیر برائے ماحولیات دونوں کی دلچسپی یقیناً حوصلہ افزا ہے۔ لیکن ضروری یہ ہے کہ روایتی طریقوں سے ہٹ کے کچھ اور مواقع بھی تلاش کیے جائیں۔ سر سبز اور آلودگی سے پاک پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ شہروں کے ساتھ ساتھ جنگلات اور پہاڑوں میں بھی مقامی ماحول کے مطابق شجر کاری کی جائے۔ ایسے جنگلات پہ خصوصی توجہ دی جائے جو گلیشئیرز بچانے میں معاون ہوں۔ صنوبر اور دیودار کے جنگلات کو ہم بڑی بے دردی سے ختم کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ پیپل اور بوڑھ کے نئے پودے بہت ہی کم لگائے جا رہے ہیں۔ پوٹھوہار کے علاقے میں پھلاہ کے درخت، جنہیں بڑھنے کے لئے لمبا عرصہ درکار ہے، جس تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں وہ بہت خطر ناک ہے۔ ان نسلوں پہ توجہ دیے بغیر آپ مطلوبہ نتائج شاید کبھی بھی حاصل نہ کر سکیں۔

ماحول کی بہتری کے لئے ضروری اقدامات کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ فوری طور پہ اگر درخت کاٹنے پہ پابندی عائد کر دی جائے تو ہم مزید نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پھلدار درختوں کے باغات میں اضافہ بھی کافی سودمند ہو سکتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ محدود سرکاری زمین کے علاوہ بھی شجر کاری کر سکیں گے۔ کسانوں کے لئے بھی یہ آمدن میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس میں آپ علاقائی لحاظ سے موزوں پھلدار درخت لگا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ملتان کے مضافات میں آم، پوٹھوہار میں زیتون اور سرگودھا کے نواح میں مالٹا۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات میں سیب، خوبانی اور اخروٹ وغیرہ۔

سفیدے کے بارے میں عام خیال یہ ہے اس درخت کو پانی زیادہ مقدار میں درکار ہوتا ہے۔ اس طرح کے پودے ہم اپنے گاؤں کے جوہڑوں، جو کہ ہر گاؤں میں ہی پائے جاتے ہیں، کے کنارے بڑی تعداد میں لگا سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایسا قدم اٹھانے سے سیورج کے اضافی پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے اور ماحول میں بہتری کے اسباب بھی پیدا ہو جائیں۔ جو بھی اقدامات ہوں ہنگامی بنیادوں پہ ہونے چاہئیں کیونکہ ہم پہلے ہی کافی دیر کر چکے ہیں۔ مزید دیر اور مزید غلطیوں کی گنجائش ہمارے پاس نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).