چاروں میں حقیقی بے غیرت کون تھا؟


مجھے مسرور نے ایک فون نمبر دیا اور کہا کہ ”مکھی یار میں ایک مشکل میں ہوں۔ یہ میری محبوبہ کی بہن کا نمبر ہے۔ وہ سالی حرامخور میری محبوبہ کو ہمیشہ میری وجہ سے تنگ کرتی رہتی ہے۔ اسے ڈانٹتی رہتی ہے۔ یہ لو اس کا نمبر اور اس کے ساتھ دوستی کرو۔ پھر اس کے ساتھ کوئی تصویر بنا کر مجھے وٹس ایپ کر دینا تاکہ میں وہ تصویر دکھا کر اس کتی کا منہ بندکر سکوں اور وہ ہماری ملاقاتوں میں رکاوٹ نہ بنے۔ “ مجھے تو وقت گزاری کے لیے ایک اچھی مصروفیت مل رہی تھی۔ لہٰذا میں نے نمبر لے لیا اور لڑکی پھنسانے کی ہرممکن کوشش کرنے کا وعدہ کرلیا۔

تنزیلہ ایف ایس سی کی طالبہ تھی۔ اس کی تمام معلومات مسرور مجھے دے چکا تھا۔ میں نے ایک دن تنزیلہ کو میسج کیا، ”السلام و علیکم۔ “ جواب آیا ”کون؟ “ میں نے کہا ”پاگل۔ “ تنزیلہ کا جواب آیا ”لگ بھی رہے ہو۔ کیوں میسج کیا؟ اور تم نے میرا نمبر کہاں سے لیا؟ “ میں نے جواب دیا ”آپ نمبر کی بات کرتی ہیں میں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں آپ کے موبائل کا سکرین سیور کیا لگا ہوا ہے۔ میں آپ کی کلاس، سیکشن، مضامین جو آپ نے رکھے ہیں، سب جانتا ہوں۔ پچھلے دوسال سے آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ بس ہمت نہیں ہورہی تھی کہ بات کروں۔ آج میرا ایکسیڈنٹ ہو ا ہے تو مجھے لگا سب سے پہلے اس کو بتاؤں جسے میں بہت چاہتا ہوں۔ “ اتنا تفصیلی میسج پڑھ کر خاموشی طاری ہوگئی۔ شام تک کوئی میسج نہ آیا نہ ہی میں نے دوبارہ میسج کیا۔

رات تقریباً ایک بجے کا وقت تھا جب اسی نمبر سے میسج آیا ”طبیعت کیسی ہے۔ اور سچ بتاؤ تم کون ہو؟ مجھے کیسے جانتے ہو پلیز سچ بتانا۔ “ میری روٹین میں شامل تھا رات دیر تک جاگنا ا ور فلمیں سٹیج ڈرامے دیکھنا۔ لہٰذا اس وقت بھی میں کوئی غیر اخلاقی فلم دیکھ رہا تھا۔ میں نے جواب دیا ”طبیعت کا پوچھنے کے لیے شکریہ۔ میں ابھی آپ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ سر میں شدید چوٹ کی وجہ سے بہت درد ہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ میں آپ کو جانتا ہوں۔ مزید اگر کبھی مجھے لگا کہ سب کچھ آپ کو بتا دینا چاہیے تو میں بتادوں گا کہ میں کون ہوں آپ کا نمبر میرے پاس کیسے آیا۔ میرے لیے آج زندگی کی سب سے خوبصورت رات ہے کہ میرے محبوب نے میری طبیعت کے بارے پوچھا۔ “

”میں ایک شریف لڑکی ہوں، دیکھو مجھے بدنام مت کردینا، میں کبھی کال نہیں کروں گی۔ بس کبھی کبھار میسج پر بات کرلیا کروں گی وہ بھی اس لیے کہ تم زخمی ہو اور ہسپتال میں ہو ( حالانکہ میں تو بیڈ روم میں لیٹا فلم دیکھ رہا تھا) ۔ جب تک میں میسج نہ کروں تم کبھی رابطے کی کوشش مت کرنا مجھے صرف تم سے یہ جاننا ہے کہ تم مجھے کب سے اور کیسے جانتے ہو؟ اور کچھ مت سمجھنا۔ میری بہن کا ایک لڑکے کے ساتھ چکر ہے۔ دوتین بار امی نے انھیں باتیں کرتے پکڑ لیا اب گھر میں سب اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میری بھی عزت مٹی میں مل جائے۔ اس لیے ہمیشہ محتاظ رہنا پلیز۔ “

میں نے کہا ”کیسی باتیں کرتی ہو۔ میں جان دے دوں گا مگر کبھی اپنی جان پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ “ پھر طویل باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کب فجر کی اذان ہونے لگی ہمیں پتہ ہی نہ چلا۔ پوری رات وہ شریف زادی میرے ساتھ میسج پر باتیں کرتی رہی۔

اگلے دن میں نے مسرور سے کہا ”مسرور تیرا کام ہوگیا، چل پیزا کھلا۔ “ جب ہم پیزا شاپ میں پہنچے تو پہلے سے وہاں مسرور کی محبوبہ بھی بیٹھی ہوئی تھی شاید مسرور نے اسے فون کرکے بلایا ہو۔ ہم تینوں نے پیزا کھایا۔ رات کے سارے میسج میں نے مسرور اور اس کی محبوبہ کو پڑھائے۔ سارے میسج پڑھ کر مسرور کی محبوبہ مسرت نے اپنی بہن تنزیلہ کے بارے جو الفاظ استعمال کیے شاید قابل بیان نہیں۔ وقت گزرتا رہا نہ ہمیں دن کا پتہ چلتا نہ رات کا میں اور تنزیلہ ایک الگ ہی دنیا میں کھو ہوگئے۔

وہ تنزیلہ جو صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ میں اسے کیسے جانتا ہوں میرے بغیر ایک پل بھی نہ رہتی۔ شاید اپنی بڑی بہن کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر وہ بھی چاہتی تھی کہ کوئی ہو جو چوری چوری اسے میسج کرے۔ اس سے بات کرے۔ مجھے تنزیلہ کو اپنے چکر میں پھنسانے کے لیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑی۔ ہر وقت میں اور تنزیلہ میسج پر باتیں کرتے رہتے۔ اب میں نے اپنے ٹارگٹ کی جانب مزید پیش قدمی کرنے کا سوچا، میں نے تنزیلہ کو ملاقات کے لیے مجبور کرنا شروع کردیا۔

مجھے یقین تھا کہ وہ ملاقات پر ضرور آئے گی۔ کیوں کہ جس دیدہ دلیری سے مسرت مسرور سے ملنے آجایا کرتی تھی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان لڑکیوں کے باہر آنے جانے پر کوئی خاص پابندی نہیں تھی۔ ایک رات صبح اذان فجر کے وقت جب ہم آخری آخری میسج کرنے والے تھے تو میں نے ایک جذباتی میسج کیا۔ میں نے لکھا ”تنزیلہ اگر تم کل مجھے ملنے نہ آئی تو اللہ کرے میرا دوبارہ ایکسیڈنٹ ہوجائے اور تم زندگی بھر پچھتاتی رہو۔ اللہ حافظ، زندہ رہا تو رات کو بات ہوگی۔ “

میرا میسج پڑھ کر تنزیلہ کا جواب آیا ”تمھیں اللہ میری عمر لگا دے۔ اللہ حافظ رات کو بات ہوگی اپنا خیال رکھنا۔ بے وقوفوں والی باتیں نہ کیا کریں۔ “ میں نے جواب دیا ”میں نے اپنا جتنا خیال رکھنا تھا رکھ چکا۔ اب تو ہروقت مجھے اپنی اس جان کا خیال رہتا ہے جسے میرا ذرہ برابر بھی خیال نہیں۔ اور بے وقوف تو میں ہوں یہ میں نے پہلے دن ہی بتا دیا تھا۔ “ تنزیلہ نے جواب دیا ”اچھا جذباتی مت ہوا کریں۔ رات کو بات ہوگی۔ “

دن ایک بجے کا وقت تھا جب میں گھر سے نکل کر مسرور کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک تنزیلہ کا میسج آیا ”میں امی کے ساتھ انارکلی جارہی ہوں۔ ممکن ہے تو آپ بھی داتا دربار آجائیں۔ “ میں نے جواب دیا ”تم امی کے ساتھ ہو میں وہاں آکر کیا کروں گا؟ “ تنزیلہ نے کہا ”آپ آئیں تو سہی، باقی میں دیکھ لوں گی۔ “ میں نے بھی نیلے رنگ کی نئی پنٹ نکالی، پاؤں میں چیتا کلب جوگر اوپر گول گلے والی سیاہ ٹی شرٹ پہن کر داتا دربار پہنچ گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2