انسان شادی کے بعد ”الو“ کیسے بن جاتا ہے؟


انسان شادی کے بعد ”الو“ کیسے بن جاتا ہے؟ یہ سوال جتنا سادہ ہے۔ اتنا ہی گہرا بھی۔ ”درویشوں کا ڈیرا“ کے بعد خواتین کی طرف سے تو بہت اچھے سوالات آئے۔ مگر کسی مرد کی طرف سے اس کا کافی فقدان رہا۔

آج اچانک ایک صاحب کا سوال آیا کہ ”رابعہ جی مرد شادی کے بعد الو کیسے بن جاتا ہے؟ “

اب ان صاحب کا یہ سوال کرنا جن کے پاس تمغہ جرات کا اعزاز ہو، قابل تحسین تھا۔ کیو نکہ عام بندہ یہ سوال کرتا توسوال ہی ”الوؤں“ کے زمرے میں چلا جاتا۔

اس سوال کے دو لوجیکل جواب تھے:

ایک یہ کہ وہ ”الو“ بنتا نہیں۔ صرف اس کا ظہو ر ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ شادی سے پہلے اس نے جو کچھ محبت، فلرٹ، افیر کے نام پہ خود کو ہیرو سمجھتے ہوئے کیے ہو تا ہے، اس سب کا بدلہ ایک زوجہ محترمہ اکیلے ہی لے لیتی ہے۔ وہ اگلا پچھلا سارا حساب برابر کر دیتی ہے۔ کیو نکہ اس کی پوزیشن مستحکم ہو تی ہے۔ اس کا ظلم زیادتی اس کا حق ہو تا ہے۔ جو وہ کبھی ادا نا ہو نے والے مہر کے بدلے لے کر آتی ہے۔

مرد کتنا بھی پھنے خان کیو ں نا ہو جب اس کے بچے جوان ہو تے ہیں، اس کو خود بھی سمجھ آجاتی ہے۔ یہ پھنے خانی تو محض دکھاوا تھی۔ بیوی جیت چکی ہے۔ کیونکہ اس کا نطفہ جتنا بھی سٹرونگ ہو، بیوی اپنی تربیت سے اس کو ڈھال ڈھول چکی ہوتی ہے۔ یہ وہ آخری لمحہ ہوتا ہے جب اس پہ منکشف ہو جاتا ہے کہ وہ اصل میں تھا ہی الو۔

شادی سے قبل کی حسین محبتیں اور بعض اوقات شادی کے بعد کے بھی مجبور محبت بھرے افئیر، جس کسی سے بھی اس نے سچے جھوٹے کیے ہو تے ہیں، اس کی آہیں، آنسو بھی تو کسی ان دیکھی احتساب عدالت میں چلے جاتے ہیں۔ اور وہ عدالت کب کیسے اپنا فیصلہ صادر کر دے اس کابندے کو عمر بھر احساس نہیں ہو تا۔ کیو نکہ اس عدالت کا اصول ہے کہ وہ فیصلہ تب صادر کرتی ہے جب بندہ بشر اپنا اچھا وقت بھول چکا ہو تا ہے۔

اب بندہ نا وہا ں کا رہتا ہے نا یہا ں کا، بس بیوی کا الو ہو کر رہ جاتا ہے۔

اس منظر نامے میں ایک اور لطیفہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو جتنا ڈینگیں مارنے والا، جتنا مرد انہ، جتنا خود کو ہیرو سمجھنے والا ہو تا ہے وہ اتنا ہی اس دلدل میں دھنسا ہو تا ہے کہ قد م کیا بڑھانا، قد م ہلا بھی نہیں سکتا۔ اس کے دوست فون کی گھنٹی بجتے ہی، اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے سمجھ جاتے ہیں کہ بھائی صاحب آپ کے جنت جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ورنہ قیامت آپ کی منتظر ہے۔ اس میں شریف مردوں کی اکثریت ہے۔ یہ بات اس سے ثابت ہے کہ آدم سے زیادہ شریف کو ن ہو گا۔ مگر جھٹ جنت سے نکل گئے۔

بیوی ایک لا محسوس طاقت ہے۔ جس کو سسرال اورشوہر کے ساتھ سیٹ ہو نے کا اتنا ہنر آتا ہے کہ پہلے تو وہ سینکڑوں باراتیوں میں اکیلی آپ کے ساتھ آجاتی ہے۔ پھر وہ جو لطیفہ مشہو ر ہے کہ دوزخ میں چند عورتو ں کو خوش دیکھا گیا تو پتا لگا کہ یہ بہوئیں ہیں، کہیں بھی سیٹ اور ایڈجسٹ ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس سے اگلی منزل یہ ہے کہ وہ سیٹ اور ایڈجسٹ آپ کو بھی ایسا کر دیتی ہیں کہ آپ کو بھی ان کا محور بننا پڑ جاتا ہے۔ بھلے اس میں بے شمار گِلے، رنجشیں، شکایتیں ہو۔ مگر آپ کی بے بسی اپنی جگہ مگر یہ اس صنف نازک کی قوت ارادی کا عملی کا ثبوت ہے۔

آپ کے سارے لطیفے جو میاں بیوی کے گرد گھومتے ہیں۔ اس ”الو“ کو چھپانے کے لئے ہو تے ہیں جو ان لطیفوں کے نیچے چھپا ہو تا ہے۔ آپ کیمو فلا ج کی حکمت عملی پہ عمل پیرا ہو کر، خود کا کیتھارسس کر رہے ہو تے ہیں۔

تو جناب من و تو! فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے کہ یہ ”ظہور“ ہے یا کسی کی ”آہ و آنسو“ کی کرشمہ سازی۔

اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر، اپنی عدالت میں خود کھڑے ہو جائیے، اور ان سب کو یاد کیجئے جن کو آپ نے ریٹائٹر منٹ کے بعد وقت گزارنے کے لئے سنجھال رکھا ہو تا ہے۔ جب آپ کسی آرام کرسی پہ اکیلے بیٹھے اپنی تتلیا ں گن رہے ہو تے ہیں۔ اور ان کی یادوں کو جوان کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لمحے آپ کی فاتح بیوی اپنے بچوں کے بچوں کے ساتھ ایک نئی پر رونق زندگی کا آغاز کر چکی ہو تی ہے۔

تما م ”ظہو رپذیر“ اور ”پو شیدہ الوؤں“ سے معذرت کے ساتھ۔
شادی مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).