اسلاموفوبیا اور میڈیا کا کردار


اسلاموفوبیا کی اصطلاح سے عام طور پر منفی معنی برآمد کیے جاتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ ان معنی کا بار خود مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فوبیا ایک نفسیاتی بیماری ہے اور کسی چیز کے خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح دنیا کے لوگ بالخصوص مغربی لوگ اسلام کے شدید خوف میں مبتلا ہیں اور اسلام کے اسی خوف کو اسلاموفوبیا کا نام دیا گیا ہے۔

اسلاموفوبیا کی اصطلاح سب سے پہلے اہل مغرب نے استعمال کی تھی اور اسلاموفوبیا مغرب میں کوئی نیا رجحان نہیں ہے یہ ایک عرصے سے چلا آرہا ہے۔ تاہم 9 / 11 کے واقعہ کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا اور اس کی کئی تعریفیں کی گئیں۔ یہاں تک کہ اسلاموفوبیا کو نسل کشی کی شکل قرار دیا گیا۔ اسلاموفوبیا کے تحت ہمارے ملک پر تشدد کیا گیا مقدس مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور دہشت گردی کو ابھارا گیا۔ جبکہ اس کا عضر بھی مسلمانوں پر ہی ڈال دیا گیا اور یہ سب مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، معاشی اقدار کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کیا گیا۔

9/ 11 کے واقعے کے بعد تو ایسا کہرام مچ گیا جس نے مسلمانوں کو وحشی، دہشتگرد اور انتہا پسند کے طور پر پیش کیا۔ اب یہ بیماری اتنی عام ہوچکی ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کئی ملکوں میں بڑی تیز رفتار سے پھیل رہی ہے اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں میڈیا جوکہ اس ناگہانی حالات سے نمٹنے میں ہتھیار ثابت ہوسکتا تھا کیا کردار ادا کیا؟

میڈیا نے ان واقعات کو پھیلانے میں بہت اہم اور منفی کردار ادا کیا، خاص طور پر مغربی میڈیا نے۔ جس نے یہ چیز مزید واضح کردی کہ دہشت گردی، قتل و غارت سب کچھ اسلام کے ماننے والوں کا کیا دھرا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک دیگر مذاہب کے لوگ ایسا تو کر نہیں سکتے لہٰذا انہوں نے اسلاموفوبیا کو مزیدگھناونے انداز میں متعارف کرایا۔ ایسی سفاک اور دردناک تصویریں اور زبان کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے دل و دماغ میں مسلمانوں کے لئے نفرت پیدا کردی اور اسلام کی ایسی روکھی تصویر پیش کی کہ اسلاموفوبیا کا سارا الزام مسلمانوں کے سر ڈال دیا۔ ایسے میں ہمارا میڈیا کیا کر سکتا تھا؟ کیونکہ پوری دنیا پر مغربی میڈیا غالب ہے لہذا ہماری تمام کوششیں جس میں اسلام کے حقائق اور مسلمانوں کو اسلام کے ہیروز پیش کیا گیا مغربی میڈیا کے پروپیگنڈوں کے سامنے فضول اور بیکار ثابت ہوا۔

آج کل اسلاموفوبیا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اور جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے بالکل اسی طرح میڈیا ہی اسلام کے خوف کو دور کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے اعزاز کو برقرار رکھنے کے لیے بہت مفید ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے ضرورت اس بات کی ہے چاہے دنیا مشرق ہو یا مغرب ہر فرد کو یہ بات باور کرائی جاے کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کا نقصان صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی ہوا ہے لہذا مغربی دنیا کی طرف سے وکٹم بلیمنگ کا گھناؤنا کھلواڑ بند کیا جائے۔

ہر قسم کے اخبارات، اشتہارات، فورم اور یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے کارناموں اور امن کے پیغام کو نشر کیا جائے اور ان کو اسلام کے مجاہدین کے طور پر پیش کیا جائے۔ کوئی بھی خانہ جنگی ہو بوسینیا یا سری لنکا کی، سب سے زیادہ مسلمانوں نے کام کیا جو اس چیز کو واضح کرتا ہے کہ اسلام کو ماننے والے کتنے نیک دل اور امن پسند ہیں۔

چونکہ میڈیا لوگوں کی رائے بناتا ہے اور ہر قسم کے حالات و واقعات سے آگاہ کرتا ہے۔ لہذا میڈیا اسلامو فوبیا کے خلاف لڑنے میں بہت مفید ہتھیار کا کام کرسکتا ہے۔ پبلک ریلیشننگ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام کے حقائق سے آگاہ کریں اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو امن کے سفیر کے طور پر پیش کریں۔ رہی بات اہل مغرب کی جو سب سے زیادہ اس خوف کا شکار ہیں اور مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور جاچکے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ ہمیشہ انسان خوف کسی طاقتور شے سے محسوس کرتا ہے مثلا انسان پانی یا آگ سے ڈرتا ہے بالکل یہی تعلق اسلام اور اہل مغرب کا بھی ہے۔ وہ باطن میں اسلام کو نہایت طاقتور محسوس کرتے ہیں اس لیے جب بھی کوئی اسلامی تحریک اقتدار میں آتی ہے مغرب اس کے خلاف سازشیں کرتا ہے اور میں سمجھتی ہوں اس صورتحال نے مغربی جمہوریت پسندی کو ہی مذاق بنا دیا ہے تبھی تو اہل مغرب اسلام اور اسلام کے ماننے والوں سے ڈرتے ہیں اور جو ڈرتا ہے وہی فریبی اور گھناونا راستہ اختیار کرتا ہے کیونکہ ویسے تو یہ مسلمانوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہتر راے استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ یہی دنیاء عالم کے امن کے لیے ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).