پاکستان میں سیلاب، بھارت اور رچرڈ ہالبروک


صدر باراک اوبامہ نے 2008 ء میں صدرمنتخب ہونے کے فوراً بعد افغانستان اور پاکستان کے متعلق سی آئی اے کے سابق سنئیر عہدیدار بروس ریڈل کی سربراہی میں ایک ”سٹرٹجیک ریویو پالیسی“ تشکیل دیا تھا۔ اسی سلسلے میں بروس ریڈل کی مرتب کردہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے اکتوبر 2009 ء میں وائٹ ہاؤس میں صدر اوبامہ کی صدارت میں پاکستان کے بارے میں آئندہ کی پالیسی ترتیب دینے کے لیے ایک اہم اجلاس چل رہا تھا کہ دوران اجلاس صدر کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان، رچرڈ سی ہالبروک نے اچانک ایک نیا نقطہ اٹھا کر سب کو ششدر کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”جناب صدر (دہشت گردی) کے خلاف ہماری جدوجہد کا محور“ گلوبل وارمنگ ”بھی ہونا چاہیے“۔

ھالبروک کی اس بات نے کمرے میں موجود ہر شخص کو مبہوت کر دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ”ھمالیہ کی چوٹیوں پر موجود گلیشیرز پر پاکستانی اور بھارتی افواج اپنے اپنے کیمپ قائم کیے ہوئے ہیں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمالیہ کے یہی گلیشئرز دونوں ممالک کے دریاؤں کو پانی مہیا کرتے ہیں۔ ان یر پاکستانی اور بھارتی افواج کی نقل و حرکت ان قدرتی گلئشیرز کو بڑی تیزی کے ساتھ سے پگھلنے کا جواز فراہم کر رہی ہے جو کہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ اور اگر یہی مشق برقرار رہی تو دونوں ممالک خصوصناً پاکستان خطرناک سیلابوں سے دوچار ہو سکتے ہیں۔“

اجلاس کے اختتام پر تمام شرکاء ہالبروک پر ہنستے ہوئے اس ایک سوال کہ Was Holbrooke kidding؟ کو اپنے اپنے انداز سے مختلف معنی پہنا رہے تھے۔

رچرڈ سی ہالبروک نے یہ بات محض تفننِ طبع کے طور نہیں کہی تھی بلکہ انہوں نے (سیلابوں ) کے تدارک کے لئے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کرکے اوبامہ انتظامیہ کو دی تھی۔

اس بات کا انکشاف معروف امریکی صحافی باب وڈورڈ نے ستمبر، 2010 ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”اوبامہ وارز“ میں کیا ہے۔ بعدازاں 13 دسمبر 2010 ء میں ہی زیرک سفارت کار رچرڈ ہالبروک آنجہانی ہو گئے اوران کی سیلابوں کی روک تھام سے متعلق رپورٹ کا کیا بنا؟ کوئی نہیں جانتا۔

آج کل پاکستان کو پھر ایک اور سیلاب کا سامنا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک پاکستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش کو ہر سال مون سون بارشوں اور دیگر وجوہات کے باعث سیلابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے بے پناہ جانی ومالی نقصانات کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد کو بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ نقل مکانی بھی کرنی پڑتی ہے۔

ماضی کی طرح آج کل ایک بار پھر بھارت کی جانب سے لداخ کے مقام پر بنے ڈیم سے وافر مقدار میں پانی دریائے ستلج میں چھوڑے جانے کے باعث ہنگامی سیلابی صورت حال کا سامنا ہے۔ اور دوسری جانب یہ سوال بھی بحث طلب ہے کہ آج کے جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور میں کیا ان سیلابوں کو کامیابی کے ساتھ روکا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں بھارت کی جانب سے آنے والا سیلابی پانی کشمیر کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا پاکستان کے میدانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے۔ اور پھر تباہی مچاتا ہوا صوبہ سندھ کے مقام پر سمندر میں جا گرتا ہے۔ ماہرین آبی وسائل کے مطابق پاکستان کے پاس چونکہ اس فالتو سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ناکافی ڈیم اور دیگر آبی وسائل انتہائی کم ہیں۔ اس لیے یہ پانی ہر سال ضائع ہو جاتا ہے۔ ایسے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مؤثر کالاباغ ڈیم کی تعمیر اب ایک ٹیکنیکل اور قومی سے زیادہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ اور مستقل قریب میں اس پر اتفاق رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔

سیلاب آنے کی وجوہات:

سیلاب کیوں آتے ہیں اس کی بڑی اور بنیادی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیاں، ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ یعنی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث پہاڑوں پر موجود گلئشیرز کا تیزی کے ساتھ پگھلنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ شدید اور غیر معمولی بارشوں کا ہونا بھی ایک بنیادی وجہ ہے۔

سندھ طاس معاہدہ :

بھارت کی جانب سے مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بھی پاکستان میں اب تک آنے والے سیلابوں کی ایک وجہ رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں اور پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے 1960 ء میں سندھ طاس معاہدہ عمل میں لایا گیا تھا، جس پر بطور گرنٹر ورلڈ بینک نے دستخط کیے تھے۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے پنجاب میں بہنے والے دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ جموں وکشمیر سے نکلنے والے دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا زیادہ حق تسلیم کیا ہے۔

معاہدے کی رو سے بھارت کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ ان دریاؤں میں فالتو پانی چھوڑنے سے قبل پاکستان کو پیشگی اطلاع دے گا۔ اور پاکستان کا زیادہ حق تسلیم کیے جانے والے دریاؤں پر غیر ضروری ڈیم اور رکاوٹیں نہیں ڈالے گا۔ مگر بھارت نے کبھی بھی ان شرائط کی مکمل طور پر پروا نہیں کی۔ جیسے کہ بھارت اگر اکھنور کے مقام سے فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑے تو یہ پانی چھ گھنٹے تک مرالہ کے مقام تک پہنچتا ہے۔ اکثر اوقات بھارت بروقت اطلاع فراہم نہیں کرتا جس کے باعث پاکستان کو اس سیلابی ریلے کے نتیجے میں بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے تمام دریا بھارت سے ہو کر آتے ہیں۔ بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مذکورہ دریاؤں پر کئی درجن چھوٹے بڑے ڈیم بنا چکا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے خصوصاً مون سون کے موسم میں اپنے ڈیموں سے فالتو پانی کے اخراج کے لیے ڈیموں کے ”سپل ویز“ کھول دیتا ہے۔ جس سے پاکستان میں سیلابی ریلے تباہی مچا دیتے ہیں۔

سندھ طاس معاہدہ اگرچہ برقرار ہے تاہم دونوں ممالک اس پر تحفظات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ خصوصاً بھارت جان بوجھ کر گزشتہ کئی سالوں سے اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کرتا چلا آ رہا ہے۔

خلیج بنگال:

موسمیات، خصوصاً بارشوں کی پیشن گوئی کرنے والے ماہرین سے ہم خلیج بنگال سے آنے والی ہواؤں کا بہت ذکر سنتے ہیں۔ خلیج بنگال پاکستان میں موسموں کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہاں اگر ہوا کا دباؤ کم ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں زیادہ بارشیں ہوں گی۔ جون تا ستمبر کے مہینے مون سون بارشوں کے لیے مشہور ہیں۔ اور انہی مہینوں میں زیادہ تر سیلاب پاکستان میں آتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے بعض ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایسا کوئی مربوط نظام نہیں ہے جو قبل از وقت سیلاب کی پیشگی اطلاع دے سکے۔

گلوبل وارمنگ :

موسمیات کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجموعی طور پر کرہ ارض پر بڑھتا ہوا درجہ حرارت جسے ”گلوبل وارمنگ“ کہا جاتا ہے عالمی آب و ہوا میں تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے کہیں تو زیادہ بارشوں سے سیلاب آ رہے ہیں۔ اور بعض خطے خشک سالی کے باعث تباہی کا شکار ہیں۔

دینا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان اور اس کا ہمسایہ بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال بھی بھی سیلابی صورتحال سے مسلسل دوچار رہتے ہیں۔ سال 2017 ء میں اسی ماہ بھارت کی ریاست کیرالہ میں گزشتہ ایک صدی کا سب سے بدترین سیلاب آیا تھا۔ جس سے کئی سو افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔ اس سیلاب سے مشرقی اور شمالی بھارت کے بہت سے دوسرے حصے بھی متاثر ہوئے تھے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چھ ہزار کے قریب چھوٹے بڑے دریا اور ندی نالے نیپال کی جانب سے شمالی بھارت کی جانب بہتے ہیں۔ بھارت نے ان میں سے بعض دریاؤں میں بھی پانی کے بہاؤ کو کم کرنے اور اپنی آبادیوں کو بچانے کے لیے دریاؤں میں رکاوٹیں اور پشتے بنا رکھے ہیں۔ نیپال تواتر کے ساتھ یہ الزام لگاتا چلا آ رہا ہے کہ بھارت جان بوجھ کر اپنی آبادیوں کو بچانے کی خاطر نیپال کے اکثر علاقوں میں بھی سیلابی صورتحال پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

بجائے اس کے کہ تمام ہمسایہ ممالک مل کر ایسی قدرتی آفات سے بچاؤ کا کوئی توڑ کریں۔ مون سون کے موسم میں آنے والے ایسے سیلابی ریلے ہمسایہ ممالک کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی فضا کو بڑھا دیتے ہیں اور سرحدوں کے ہر دو جانب لوگ ایک دوسرے کو اس کا موردِالزام ٹھہراتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ سال ہا سال سے یونہی چلتا آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).