سفارت خانوں میں کشمیر خانہ


پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں عالم ہوگے سارے ہو
اک حرف عشق دا ناں پڑھ جانن بھلے پھرن بچارے ہو

جنگل میں شیر ہی بادشاہ ہوتا رہا ہے لہذا جنگل میں موجود کچھ جمہوریت کے دیوانوں کو یہ گوارا نہ ہوا تو انہوں نے ایک ایسے جانور کو شیر کے مقابل امیدوار نامزد کر دیا جو بہت پھرتیلا اور چوکس بھی تھا اور اپنی وضع قطع میں ان سب سے قدر مختلف بھی نظر آتا تھا لہذا جنگل میں تبدیلیوں کی امید پیدا ہوئی نئی اور نئی ہوائیں چلنے لگیں۔ خواب خرگوش میں گم شاہی ایوانوں میں یہ خبریں پہنچیں تو بادشاہ جلال میں آگیا اور اس مبینہ سازش کے محرکات اور اس میں شامل جانوروں کی فہرست مرتب کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ ادھر الیکشن کے دن قریب سے قریب تر ہوتے جارہے تھے اور مخالف پارٹی کا تبدیلی کا بیانیہ تقویت پکڑ رہا تھا۔ شیر کے پاس وقت کم تھا لہذا اسے اس سازش کی تحقیق کا وقت تو ملا مگر الیکشن کی ہمہ ہمی میں معاملہ تفتیش تک نہ جاسکا۔

الیکشن ہوئے اور جنگل کا بادشاہ الیکشن ہار گیا۔ نو منتخب چاق و چوبند بادشاہ مسند حکومت پر براجمان ہوگیا۔ شیر کے قریبی دوستوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد ہر یہ نتیجہ نکالا کہ لومڑی نے اپنی ہوشیاری اور سمجھدار چالاکی صلاحیتوں کی بدولت ناصرف تبدیلی کی آواز اٹھائی بلکہ اس کے لئے بندر کو مقابل امیدوار شاہ بننے کے لئے قائل بھی کر لیا اور پھر اس کے حق میں بھرپور الیکشن مہم بھی اسی نے کچلائی۔ پس یہ سب کیا دھرا لومڑی کا ہی تھا۔

ہارا ہوا بادشاہ آگ بگولا ہو گیا اور اس نے لومڑی کی تلاش شروع کر دی اور اسے مار کھانے کا ارادہ کر لیا۔ لومڑی کو جب یہ سب اطلاع ملی تو وہ بھاگ کر دربار شاہ نو کی خدمت میں پہنچی اور اپنے تحفظ اور امان کے لئے شاہ نو کی خدمت میں فریاد کی۔ نیا بادشاہ اسوقت ایک بہت ہی اونچے درخت پہ بیٹھا پھل کھا رہا تھا۔ لومڑی کی فریاد سن کر بہت پریشان ہوا اور تیزی سے درخت سے نیچے آیا اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی اور پھر تیزی سے ایک درخت پہ چڑھا اترا تو دوسرے پہ ایک کی شاخ کو تھاما اور جست لگا کر دوسرے درخت پہ لینڈ کیا وہ یہ عمل مسلسل کئی گھنٹوں سرانجام دیتا رہا لومڑی نیچے کھڑی سب دیکھتی رہی بالا آخر وہ وہ تھک ہار کر لومڑی کے پاس آیا اور اس کے کاندھے کو تھپتھپاتے ہوئے اطمینان سے بولا (لے پئی نٹھ پج سے جنی ہوسکدی سی اساں کر لئی اگے تیری قسمت جو رب دی مرضی) جتنی بھاگ دوڑ میں کرسکتا تھا میں نے کر لی ہے اب میں تمہارا معاملہ تمہاری قسمت اور رب اللہ کی مرضی پہ چھوڑتا ہوں۔

ہمارے حکمرانوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ درختوں پہ جست در جست اچھل کود تو نہیں کرتے مگر انہوں نے اس کے لئے سوشل میڈیا، ٹی۔ وی ٹاک شوز اور ٹویٹرز کا سہارا لیا ہوا ہے جہاں وہ انشاءاللہ یہ ہو جائے گا۔ الحمد اللہ ہم کریں گے۔ ماشا اللّہ ہمارے قائد تیار ہورہے ہیں وغیرہ ؤغیرہ کی ایک طویل گردان ہے جو سناتے رہتے ہیں۔

اک گردش ایام کہ جاری ہے شب و روز
پر مجھ کو تو یہ دنیا رُکی محسوس ہوتی ہے

پاکستان آئے روز ایک کے بعد ایک مسئلے کا شکار ہوتا جارہا ہے اور حکمران ہیں کہ ماضی کے جھروکوں سے دیکھتے رہنے کے مسلسل عمل سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے۔ اب ایک سال کے بعد انہیں یہ احساس ہوا ہے کہ احتساب کا عمل ان کے روز مرہ کاموں میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے لہذا آج انہوں نے اپنے پرانے طریقے کو جاری رکھتے ہوئے احتساب کے قانون میں پارشل تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق موجودہ حکومت ہر مسئلے کو پارشل بنیادوں پر ہی حل کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔

وہ سفارتی میدان میں ٹرمپ ثالثی بیان ہو تو ورلڈ کپ کی جیت کہلاتا ہے۔ کل تک جناب وزیراعظم ہٹلر کو ایک سمجھدار اور دور اندیش مانتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر وہ رشیا ء نہ جاتا تو یورپ کی تقدیر بدلی ہوئی ہوتی۔ آج وہ کشمیر میں مودی کی بربریت پر مودی کو آج کا ظالم نازی ہٹلر کہہ رہے ہیں۔ کل تک کشمیر کے مسئلے کو سیکیورٹی کونسل تک لے جاکر اپنا سینہ چوڑا کیے ہوئے تھے آج وہ ٹرمپ کی کال کو نوید سحر کہہ رہے ہیں کل ان کے وزیر خارجہ اپنی سفارتی حدود کو محسور سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ کوئی ہمارے لئے پھولوں کے ہار لئے منتظر نہیں کہ ہم آئیں اور وہ ہمارے ساتھ ملکر چل پڑیں آج وہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ تک جا پہنچے ہیں مگر یہ سب بیان ہیں سوشل میڈیا پریس کانفرنس ٹاک شوز پر ہی ہے۔

عملی طور حکومت وقت ایوانوں ہی میں بیٹھ کر نجانے کون سی دوربینی نظروں سے معاملات کا سی سی ٹی وی جائزہ لے رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب کے سب وفود کی شکل میں انٹرنیشنل کمیونٹی کو بیدار کرانے دوڑ نکلتے کشمیری عوام کا واویلہ دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام تک پہنچا کر انہیں کو گھروں سے باہر نکال چکے ہوتے۔ انسانی حقوق تنظیمیں پاکستان کے ساتھ کھڑی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کے لئے بیتاب ہوتیں یا داخل ہو چکی ہوتیں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم دنیا پہ آشکار ہو چکے ہوتے بھارت دنیا کے دباؤ میں آ چکا ہوتا اور کشمیر کے دروازے کھل چکے ہوتے۔

اب حکومت سفارت خانوں میں کشمیر ڈسک کھولنے کا سوچ رہی ہے یعنی اب مزید زلفی بخاری نوازے جانے کی سعی ہو رہی ہے۔

میں عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہوں اور میرا ایمبسی میں آنا جانا رہتا ہے۔ میں نے کشمیر کے حوالے سے جتنا محرک امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کو ماضی میں دیکھا اب ویسا نہیں ہے۔ خاص طور ہر ایمبسڈر شری رحمان، ایمبسڈر جلیل عباس جیلانی اور ایمبسڈر اعزاز چوہدری کے ادوار اس حوالے سے قانل ذکر ہیں جب کشمیر ڈے کے علاوہ بھی کشمیر کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوتے تھے اور بہت ہی جانے مانے مقامی اور انٹرنیشنل ماہرین کشمیر و انسانی حقوق بشمول متحرک کشمیری رہنما اور امریکہ سٹیٹُ ڈپارٹمنٹ کے اہلکار اور ممبران کانگرس ان میں شرکت کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب تو متعدد اچھے لکھنے پڑھنے والے تک بھی سفارت خانے کی انویٹیشن لسٹ سے باہر ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نیت ہو تو بغیر کسی نئے ڈسک کے کام کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ ہمیں موجود ذرائع ہی کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کا ہنر آنا چاہیے جیسے ہماری سائنسی زبان میں ڈویژن آف لیبر کہتے ہیں۔

میرے قارئین اکثر گلہ کرتے ہیں کہ میں حکومت ہر تنقید کرتا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے میں تو کمزوریوں کی نشان دہی کرتا ہوں اہم امور سے صرف نظر پر متنبہ کرتا ہوں۔ جو ہر ایک محب وطن شہری کی بنیادی ذمہ واری ہے۔ وگرنہ حکومتوں کو کبھی بھی قصیدہ گوؤں کی کمی نہ ماضی میں کبھی رہی تھی اور نہ اب ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).