دریچے: سفر سے جڑے سفر


یوں تو زندگی ایک سفر ہی ہے۔ انسان ماں کی گود سے لحد تک سفر ہی تو کرتا ہے۔ یہ سفر خوشگوار بھی ہو سکتا ہے اگر راستے میں سایہ میسر ہو۔ ماں اور باپ ایک گھنے سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ ان کے پتے توڑ لیں، ٹہنیاں کاٹ لیں، یہ آپ کو سایہ فراہم کرتے رہتے ہیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں آپ کا سفر جاری رہتا ہے۔ بیوی بچے اور مخلص دوست جگہ جگہ آپ کے لئے سایہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ سایہ ملتا رہے تو زندگی کا سفر خوشگوار رہتا ہے۔

ہمارا موجودہ سفر سات جولائی کو صبح آٹھ بجے شروع ہوا تھا۔ ہماری منزل ناران تھی۔ اس سفر کے ساتھی بیگم اور دو بیٹیاں تھیں۔ ڈرائیور کی گنجائش نہ ہونے کے سبب گاڑی خود چلانی تھی یا بڑی بیٹی نے جو ماشاللہ ڈرائیور ہے۔ خانیوال سے شروع ہونے والا سفر براستہ کچاکھوہ، عبدالحکیم موٹر وے پر گامزن ہوا۔ موٹر وے پر چڑھتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ پنجاب سے اچانک یورپ آگئے ہیں۔ سفر اتنا آسان بھی ہوسکتا ہے، ہم نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ آپ نان سٹاپ چلتے جائیں توچار ساڑھے چار گھنٹوں میں اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ یہی سفر موٹروے بننے سے قبل آٹھ گھنٹے، جوڑوں اور کمر درد کے ساتھ بمشکل تمام ہوا کرتا تھا۔

ہمارا پہلا سٹاپ ایم ٹو پر واقع ریسٹ ایریا بھیرہ تھا۔ یہ لاہور پنڈی موٹر وے ایم ٹو پر سب سے زیادہ ڈیویلوپڈ سٹاپ ہے۔ یہ لاہور اور پنڈی کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔ یہاں مکڈونلڈ، کے ایف سی اور کھانے پینے کے ہر طرح کے لوازمات مل جاتے ہیں واش روم تو ایم ٹو کے ہر ریسٹ ایریا میں آپ کو صاف ستھرے اور وافر ملتے ہیں۔ ہم یہاں صبح ساڑھے دس بجے پہنچ گئے تھے۔ یہ سفر چونکہ میری چھوٹی بیٹی کرن، جسے ہم پیار سے ”چھوٹو“ کہتے ہیں، کے ایما پر، اور اس کی خوشنودی کے لئے کیا تھا، اس لئے عملی طور پر چھوٹو ہی اس سفر کا میر کاروان تھی۔

مکڈونلڈ ابھی کھلا نہیں تھا اس لئے گورمے پر بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ موٹر وے کے ہر سٹاپ پر آپ کو گورمے اور راحت بیکری ضرور ملے گی۔ پٹرول البتہ آپ کو حسکول کا ہی ڈلوانا پڑتا ہے۔ خانیوال سے فیصل آباد موٹر وے اس طرح کے تکلفات سے ابھی عاری ہے، اس لئے سفر کا یہ ٹوٹا صحرائے گوبی کی طرح بھوکا پیاسا رہ کر گزارنا پڑتا ہے۔ خانیوال فیصل آباد سیکشن پر ابھی نہ تو کوئی ریسٹ ایریا ہے نہ پٹرول پمپ۔

موٹر وے پر چلتے چلتے آپ سالٹ رینج کراس کرکے کلر کہار کی خوبصورت وادی سے گزرتے ہیں۔ وقت ہو تو یہاں رک کر ٹھنڈی ہوا کے مزے لیتے ہوئے چائے پینا اچھا لگتا ہے۔ ایک بار ہم نے اس وادی کو ایکسپلور کیا تھا۔ اب تو یہاں کئی ریسٹورنٹ بن گئے ہیں۔ کلر کہار جھیل، لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے موٹروے سے بائیں جانب نظر آتی ہے۔ ایک بار ہم یہ جھیل دیکھنے موٹر وے سے کلر کہار اترے تھے۔ اس دن موسم کافی بہتر تھا اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ موٹر وے سے باہر جھیل بالکل قریب ہے۔ کبھی کبھی جھیل میں پانی کم ہوتا ہے تو کشتی رانی نہیں ہو سکتی۔ اس دن پانی اچھا تھا۔ چھوٹو اور نومی نے پیڈلنگ والی کشتی چلائی تھی۔ موجودہ سفر میں نومی ساتھ نہیں تھا اور چھوٹو کو پرانا ٹور بالکل یاد نہیں تھا۔

گزشتہ سال سردیوں میں برف باری دیکھنے مری گئے تھے تو نومی ساتھ تھا۔ نومی میرا بیٹا ہے جو ملائشیا میں زیر تعلیم ہے۔ چھٹیوں میں اس کے ساتھ ہم ضرور کہیں نہ کہیں کا سفر کرتے ہیں۔ مری سے واپسی پر کلر کہار رکے، تو راج کٹاس مندر دیکھنے چل پڑے۔ کلر کہار اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن سے مالامال تاریخی حیثیت کا حامل، ایک پرسکون خطہ ہے۔ عظیم مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنی فوجوں سے اس جگہ پر خطاب کیا تھا۔ بعد ازاں اس مقام کو تخت بابری کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ یہ عظیم یادگار تاریخ کے متوالوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بابر نے اپنی شہرہآفاق تصنیف ”تزکِ باببری“ میں اس مقام کا تزکرہ کیاہے۔ اسے ایک خوبصورت ٹھنڈی ہوا والی جگہ کا نام دیا ہے

کٹاس مندر دیکھنے کی تمنا ایک عرصہ دل میں مچلتی رہی تھی۔ عصر کا وقت تھا جب ہم نے کلر کہار کے مقام پر موٹروے چھوڑ کر چواسیدن شاہ والی روڈ پر گاڑی ڈال دی۔ وقت کم تھا اور دوطرفہ ٹریفک ہمارے راستے کی رکاوٹ بنتی جارہی تھی۔ سورج غروب ہونے سے دس منٹ قبل ہم کٹاس مندر پہنچ چکے تھے۔ مندر جانے کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ چوکیدار کی منت سماجت کی، خدمت کے وعدے پر اس نے نہ صرف گیٹ کھولا بلکہ گائیڈ کے فرائض بھی ادا کئیے۔ میں اس کا مشکور ہوں، تاریخ کے ساتھ ساتھ اس نے روایتی لوک داستانیں سنا سنا کر ہمارا دل بہلائے رکھا۔

کٹاس راج، ایک مندر نہیں بلکہ سلسلہ وار کئی مندر اور قلعہ نماحویلی کی صدیوں پرانی مذہبی، ثقافتی اور تاریخی عمارتوں کا سلسلہ ہے۔ یہ عمارتیں اور مندر قدیمی ہندو عبادت گاہوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ دیوتا رام شیو نے اپنی پتنی ستی کے ساتھ یہاں کئی سال گزارے تھے۔ ان مندروں کے بیچ ایک جھیل یا تالاب ہے۔ کبھی اس کا پانی شفاف، میٹھا اور نیلگوں ہوا کرتا تھا۔ روائیت کے مطابق دیوتا رام شیوکی پتنی ستی کا انتقال ہوا، تو رام شیو اتنا روئے، کہ ان کے آنسووں سے یہ جھیل معرض وجود میں آئی۔ ہندو عقیدے کے مطابق اس جھیل میں اشنان کرنے سے انسان کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

چواسیدن شا میں راج کٹاس مندر کے ارد گرد تعمیر شدہ سیمنٹ فیکٹریوں نے جہاں اس خطے کے حسن کو گہنایا، ماحولیاتی آلودگی پھیلائی، وہیں زیر زمین پانی بھی چوس لیا، جس کی وجہ سے راج کٹاس کی مقدس جھیل خشک ہوگئی جو بہت ہی افسوس ناک بات ہے۔

گائیڈ ہمیں سکھ جرنیل ہری سنگھ کی تعمیر کردہ حویلی لے گیا جس کے منقش درودیوار انتہائی دلکش و دلآویز ہیں۔ وہ ہمیں کٹاس مندر اور شیوا مندر بھی لے گیا۔ اندھیرا ہو گیا تھا اور ہم موبائل کی روشنیاں جلا جلا کر ان عظیم مقامات کو دیکھ رہے تھے۔ وقت کی کمی کے باعث ہم اپنا شوق پورا کیے بغیر لوٹنے پر مجبور ہو گئے۔

اس مندر کے بالکل سامنے کارنر پر مسلمانوں نے ایک مسجد تعمیر کی ہے۔ ہم نے وہاں مغرب کی نماز ادا کی اگرچہ اس وقت تقریباً عشا ہونے والی تھی۔ سنا تھا کلر کہار کی پہاڑیوں اور وادیوں میں مور ناچتے اور خوبصورت پرندوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ واپسی پر چونکہ رات گہری ہو رہی تھی اس لئے مور تو کیا نظر آنے تھے الّو بھی نظر نہیں آئے نیز ہمیں واپس موٹر وے چڑھنے کی جلدی بھی تھی۔ اس لئے واپسی کی ٹھانی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).