لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں


یہ بات ہے اس زمانے کی جب پاکستان میں آزادی صحافت کے لئے دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی تھی۔ 1977-1978ء میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی قیادت منہاج برنا اور نثار عثمانی جیسے بے باک اور دوٹوک صحافیوں کے ہاتھوں میں تھی۔ کارکن صحافیوں کی ملک گیر فوج ظفر موج اپنے راہنماؤں پر اندھا اعتماد رکھتی تھی۔ ایک پر حملہ سب پر حملہ کا تصور ایمان کی حد تک مستحکم تھا۔

جنرل ضیاء الحق کی آمریت سرکاری میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بھی سنسر شپ کے خلاف جدوجہد میں شامل ہونے سے نہیں روک سکی تھی۔ میں پچھلی صفوں میں موجود کارکن صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑا اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ صحافیوں کی وفاقی یونین کا ہیڈ آفس کراچی میں تھا۔ اسی لئے میرا کراچی آنا جانا زیادہ ہو گیا تھا۔

کراچی پریس کلب پہنچتے ہی پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ ملنے آ جاتے۔ انہی پرستاروں میں ایک تھا حسینی۔۔۔۔ وہ تو میرے کراچی پہنچنے کے پانچ منٹ بعد ہی میرے سامنے ہوتا۔ میں سوچتا رہ جاتا کہ کیا یہ کوئی جادوگر ہے؟ اسے خواب آتا ہے کہ میں کب کہاں ہوں گا۔ اس کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ ہوتی ۔ اس کے ہاتھوں میں گولڈ لیف کی ڈبیا اور پان کا لفافہ ہوتا۔ جب میرا ہاتھ پان کے لفافے کی جانب بڑھتا تو وہ مجھے خود ایک پان نکال دیتا اور کہتا کہ باقی میں اپنے پاس رکھوں گا۔ وہ مجھے احساس دلاتا کہ پان اور سگریٹ میں نے پکڑ لئے تو شاید میرے ہاتھ تھک جائیں گے۔ یہ اس کے مجھ سے لگاؤ کی انتہا لگتی تھی۔

وہ مجھے تاکید کرتا کہ میں کراچی میں قیام کے دوران ناشتہ ۔ لنچ اور ڈنر اس کے ساتھ کروں گا۔ وہ کھانے کے لئے مجھے مہنگے ہوٹلوں میں لے جاتا۔ خوش مزاج اور باتونی تھا۔ اس کے ساتھ میں بھی خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا۔ میں اسے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی میٹنگز میں بھی ساتھ لے جاتا۔ یہ سلسلہ ایک عرصہ تک چلتا رہا۔

ایک بار میں کراچی پہنچا تو حسینی نہیں آیا۔ مجھے اس کی سنگت کی عادت پڑ چکی تھی۔ وہ بار بار یاد آیا تو میں نے اسے ڈھونڈنے کی ٹھان لی۔ شدید گرم دن تھا۔ میں صدر کے علاقے میں ان تمام جگہوں پر گیا جہاں جہاں وہ مجھے لے کر جاتا رہا۔۔ کوئی سرا نہ مل رہا تھا اس کا۔ بڑی تگ و دو کے بعد مجھے اس ایریا کا نام مل گیا جہاں وہ رہتا تھا۔ میں بس میں بیٹھ کر وہاں پہنچا ۔ وہ انتہائی غریب لوگوں کی بستی تھی۔ بہت ساری عورتوں اور بچوں کو ہاتھ والے نل سے پانی بھرنے کے لئے ایک لمبی قطار میں کھڑے دیکھا۔

پوچھتے پوچھتے بالآخر میں ایک دروازے تک پہنچ ہی گیا۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ میں بار بار کھٹکھٹاتا رہا۔ کوئی باہر آیا نہ اندر سے کوئی آہٹ سنائی دی۔ میں نے دروازہ کھول لیا۔ ایک چھوٹا سا کچا صحن اور اس سے آگے ایک چھوٹا سا گارے سے بنا ہوا کمرہ ۔ انتہائی گرمی کے باوجود حسینی زمین پر دری بچھائے سو رہا تھا۔ کمرے میں مٹی کی ایک صراحی۔ گلاس۔ پلیٹ اور سگریٹ کے ٹوٹوں کے سوا کوئی اور کوئی شے نہ تھی۔

میں نے اسے جگایا۔۔ پسینے سے شرابور۔ جسم بھی تپ رہا تھا۔ وہ دو دن سے بھوکا بھی تھا۔۔۔ حسینی نے بلا کسی لگی لپٹی کے بتایا کہ وہ ایک انٹیلی جنس افسر کے لئے آؤٹ سورس کے طور پر کام کرتا تھا۔ اسے میرے بارے میں اطلاعات وہی افسر دیتا تھا اور مجھ پر جو خرچہ ہوتا تھا اس کی ادائیگی بھی انٹیلی جنس ایجنسی ہی کرتی تھی۔ وہ کراچی میں میری ساری مصروفیات کی رپورٹ دیا کرتا تھا۔ اس اعلی افسر کا تبادلہ ہوا تو اس نے حسینی سے رابطہ ختم کر دیا۔ اب حسینی بے روزگار تھا۔

باتوں کے دوران حسینی شرمندہ تھا نہ میں حیران۔۔۔

میں نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔ چلو آج میں تمہارا میزبان بنوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).