جنرل باجوہ کو توسیع کیوں ملی


جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں تین سال توسیع مل چکی۔ سوال یہ ہے کیا ایسا کرنا ناگزیر و مفید تھا یا غیر ضروری و نقصان دہ؟

اس فیصلے کے حامی کہتے ہیں یہ دہشت گردی کے خلاف پالیسی کے تسلسل اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ضروری تھا جبکہ مخالفین اسے غیرضروری اورادارے کے دیگر افسران کے ساتھ زیادتی قرار دے رہے ہیں۔

آئیے اس فیصلے پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا تجزیہ کرتے اور جواب دیتے ہیں۔ اعتراضات قوسین میں دیے گئے ہیں۔

کوئی شخص ناگزیر نہیں ہوتا

”کہا جاتا ہے کہ افراد نہیں بلکہ ادارے اور اصول اہم ہوتے ہیں۔ کوئی شخص بھی ناگزیر نہیں ہوتا۔ منصوبہ بندی تو کوئی بھی جنرل کر سکتا ہے اس لے یہ توسیع غیر ضروری تھی۔ “

یہ بات اصولی طور پر صحیح ہے کہ کوئی ناگزیر نہیں ہوتا۔ اکثر ممالک میں عموماً فوجی سربراہ کو توسیع نہیں دی جاتی اور وہ مقررہ وقت پر سبکدوش ہو جاتا ہے۔ تاہم پاکستان اور بعض دیگر ممالک میں کبھی کبھار آرمی چیف کو توسیع ملتی رہی ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کے مخصوص حالات، تاریخ اور حقائق ہیں۔ یہاں سول اور جمہوری ادارے کمزور اور منتشر ہیں جب کہ فوج ایک متحد اور مضبوط قوت ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ فوج حکم واطاعت پر مبنی ادارہ ہے جس میں ایک اچھے سپہ سالار کی اہمیت دوسرے اداروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

فوج سے بحیثیت ادارہ یقیناً وزیراعظم نے اس مسئلے پر رائے طلب کی ہوگی۔ کشمیر اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال، معیشت کی بحالی اور احتسابی عمل پر پالیسی میں تسلسل کے لیے اس مرحلے پر کمانڈ کی تبدیلی یقیناً غیر حکیمانہ بات ہوتی۔ جب حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تعلقات بگڑ چکے ہیں اور مستقبل میں مزید خراب ہونے کا امکان ہے تو وزیر اعظم، جن کا موجودہ فوجی قیادت سے احترام اور تعاون کا مضبوط رشتہ قائم ہے، ایسے میں نئی تعیناتی کیوں کرتے اور توسیع کیوں نہ دیتے؟

پھر یہ فیصلہ کرنا کہ نئی تقرری کی جائے یا کسی کو توسیع دی جائے یہ وزیراعظم کا صوابدیدی آئینی اختیار ہے، وہ جو چاہیں فیصلہ کریں۔ ان کو جو معلومات حاصل ہیں ان کی روشنی میں اپنے اور ملک وقوم کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ جو بھی فیصلہ کریں دوسروں کو اس میں سازشیں اور مجبوریاں ڈھونڈنے کا کوئی حق نہیں۔

اگر عمران خان واقعی احتساب کے متمنی ہیں جو کہ وہ بظاہر ہیں تو وہ طاقتور ہیئتِ مقتدرہ کی حمایت کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس لیے ان کی اولین ترجیح یہ تھی کہ ایسا آرمی چیف ہو جو اس کام میں ان کی مدد کریں یا غیرجانبداررہیں۔ بظاہر توسیع اسی بنیادی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔

ڈسپلن پر شکوک

”اس توسیع نے فوج میں نظم وضبط اور اس کی پیشہ ورانہ ایمانداری پر شکوک پیدا کیے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ موجودہ افسران میں ایسے افراد بھی ہیں کہ اگر ان کو موقع ملتا تو وہ جنرل باجوہ کی موجودہ پالیسیوں کو تبدیل کردیتے۔ “

یہ محض ایک اندازہ، شک اور غلط فہمی ہے۔ فوج کا نظم و ضبط مثالی ہوتا ہے۔ فوج کا سربراہ پالیسی بناتا ہے اور پوری فوج اس کی پیروی کرتی ہے۔ اس کا واضح ثبوت قومی انتخابات 2008 سے قبل جنرل مشرف کی قیادت میں اور پھر ان انتخابات کے دوران جنرل کیانی کی پالیسی کے مطابق مسلم لیگ ق سے متعلق فوج اور اس سے وابستہ اداروں کا طرزعمل تھا۔ مسلم لیگ ق جو اس سے پہلے کنگز پارٹی کہلاتی تھی فوج کے نئے سربراہ کی غیر جانبداری کی پالیسی کی بنا پر بری طرح شکست سے دوچار ہوئی تھی۔

ادارے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان

”اس توسیع کا مطلب یہ ہے کہ ادارے میں جنرل باجوہ کی جگہ لینے والا کوئی مناسب افسر موجود نہ تھا۔ یہ ادارے کی پیشہ ورانہ صلاحیت کے بارے میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔“

ویسے تو فوج حکم و اطاعت کے اصول پر چلتی ہے تاہم پرنسپل سٹاف افسرز اور کور کمانڈرز اجلاس میں افسران کسی بھی معاملے پر ہر پہلو سے بحث مباحثہ اور سوال و جواب کرتے ہیں۔ ایسا اس معاملے میں بھی یقیناً ہوا ہوگا۔ فوج یقیناً بحیثیتِ ادارہ اس فیصلے کے پیچھے تھی۔ اس لیے کسی اور کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ معمول کا فیصلہ ہے۔ اسفندیار ولی خان نے بجا طور پر کہا یہ اداروں کا معاملہ ہے، اس پر تبصرے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے جنرل قمر جاوید باجوہ وقت کی ضرورت ہیں۔ موجودہ ملکی اور خطے کی صورت حال میں پاکستان کسی نئی تقرری پر ممکنہ بدگمانیوں اور سازشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے اس معاملے کو جلد نمٹاکر اچھا کیا گیا اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کو اس نازک موقع پر بتادیاگیا کہ سول اور فوجی ادارے ایک پیج پر اور یکسو ہیں۔

ادارے کے دیگر افسران سے زیادتی

”کہا جاتا ہے مقررہ مدت کے بعد ریٹائرمنٹ ایک مسلمہ عالمی اصول ہے۔ آرمی چیف کو توسیع ملنے سے فوج کے سربراہ بننے کے منتظر افسران محروم ہوگئے۔ بی بی سی کے مطابق آئندہ تین سال میں کم سے کم بیس جنرل رینک کے افسران آرمی چیف بنے بغیر ریٹائر ہو جائیں گے۔ اس قسم کے عمل سے دیگر اہل کاروں کی حق تلفی اور دل شکنی ہوتی ہے اور مورال پر منفی اثر پڑتا ہے۔ آرمی ایک ادارہ ہے۔ اس کے ضوابط ہیں اسے ان کے مطابق چلایا جائے نہ کہ کسی پارٹی کی طرح ایک فرد کی اس میں مستقل قیادت ہو“

ایک بات تو یہ یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کے مخصوص حالات ہیں یہاں سیاست اور اقتدار کی کشمکش میں کئی ایسی انہونیاں ہوتی رہتی ہیں جن کا باہر دنیا میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ مثلاً یہاں اکثر سیاسی ”جمہوری“ پارٹیوں پر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ پھر جنرل باجوہ تو سرے سے توسیع لینے کے حق میں نہیں تھے اور انہیں موجودہ حالات کے پیشِ نظر پالیسی میں تسلسل کے خواہشمند افراد نے بڑی مشکل سے تیار کیا۔ پھر امریکہ اور چین بھی کسی دوسرے کے بجائے ان کے ساتھ کام کرنے پر خوش تھے۔

خطے کے حالات، ملک کی اندرونی صورتِ حال، ملکی مفادات اور ان کے تجربے کو مدنظر رکھیں تو چیف کے عہدے پر کسی اور کے بجائے جنرل باجوہ کی موجودگی ضروری تھی۔ پھر اگر فوج میں ماضی کا وائس چیف آف سٹاف کا عہدہ، جس پر جنرل کی تعیناتی ہوتی تھی، بحال کردیا گیا تو بہت سوں کو موقع مل جائے گا۔ پھر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کو بھی اپگریڈ کرکے فور سٹار جنرل تعینات کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ ساری دلیل دھڑام سے گرجائے گی۔

فوج اور پی ٹی آئی

”کہاجاتا ہے سیکیورٹی اداروں نے پی ٹی آئی کو حکومت دی تھی اور پارٹی نے توسیع دے کر بدلہ اتارا۔ “

یہ بات صحیح نہیں۔ پی ٹی آئی کو حکومت ایسے ہی نہیں ملی۔ اس نے عمران خان کی قیادت میں تئیس سال سخت محنت کی۔ اس کی عوامی حمایت اور انتخابات میں حاصل کردہ ووٹ بتدریج بڑھتے رہے۔ 2013 میں اس نے انتخابات میں 5۔ 16 فیصد ووٹ اور 35 نشستیں حاصل کیں جبکہ 2018 میں اس نے 82۔ 31 فیصد ( 9۔ 16 ملین) ووٹ اور 149 نشستیں حاصل کیں۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ عوامی حمایت سے محروم تھی تب اسے کسی نے حکومت کیوں نہ دی؟ جب یہ اپنی محنت اور سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے طفیل مضبوط اور کامیاب ہوکر سامنے آئی تو اب ہر ایک اسے فوج کی حمایت کا نتیجہ کیوں گردانتا ہے؟

ویسے مروجہ سیاست میں اپنی جیت کو ذاتی قابلیت و محنت اور شکست کو دھاندلی اور ایجنسیوں یا فرشتوں کی مداخلت کا نتیجہ ہمیشہ سے قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اب تک مشکل سے ہی کسی کو اپنی شکست قبول کرتے دیکھا ہے۔

خان صاحب کا سابقہ موقف

”وزیراعظم عمران خان صاحب نے جنرل کیانی کو توسیع دینے کی سخت مخالفت کی تھی۔ اب خود کیوں ایسا کیا؟ “

اس قسم کی باتیں حکومت سے پہلے سب سیاستدان کرتے ہیں۔ پھر جب حکومت اور اہم معلومات تک رسائی ملتی ہے تو ان سے یوٹرن لے لیتے ہیں۔ ایم ایم اے کے رہنما بھی حکومت میں آنے سے پہلے مسجدوں میں فیصلے کرنے اور گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کو یونیورسٹیاں بنانے کی بات کرتے تھے اور شہباز شریف بھی پیٹ پھاڑنے اور گھسیٹنے کو بات کرتے تھے۔ وہ حکومت میں آگئے تو کیا انہوں نے اس سے الٹا طرزِعمل نہیں اپنایا؟ عمران خان نے موقف بدلا تو کون سی نئی بات ہے۔

چنانچہ توسیع کا یہ فیصلہ وزیراعظم کو حاصل آئینی اختیار کے تحت کیا جانے والا ایک فیصلہ ہے۔ اس کے فائدے بھی ہیں اور کچھ نقصان بھی ہوسکتے ہیں۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ یہ فیصلہ ملک وقوم کے لیے مفید ثابت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).