میڈیا منڈی کا سیٹھ اور عوام


پاکستانی میڈیا کے نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز سننا ممنوع ہے۔ یہ پابندی نصف بہتر کی جانب سے ہم پر عائد ہے۔ اب اتنی پابندی بھی نہیں جیسے آپ سمجھ رہے ہیں، آواز بند کرکے ہم ہیڈ لائنز دیکھ سکتے ہیں اور اس پر ہمیں گھورا بھی نہیں جاتا۔ ہیڈ لائنز سننے کے نقصانات بتاتے ہوئے موصوفہ کا کہنا ہے کہ خبروں کی سرخیاں پڑھنے کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے لٹھ بردار آوازے کستا پیچھے پڑا ہو۔ یہ چیخ و پکار کے انداز میں ہیڈ لائنز کا بیان، بچوں کو بولنے چالنے اور شائستگی سے بات کرنے کے انداز بیاں کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

عام انسان کے اعصابی دباؤ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا لوگوں کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ (ہاں البتہ کم فشار خون کے مریضوں کے لئے شاید کارگر نسخہ ثابت ہو۔) زوجہ محترمہ تو اس فعل کو باقاعدہ سماعت کی آلودگی قرار دیتی ہیں۔ اور اس کے مقابل بی بی سی کے سابق اور حالیہ انداز بیاں کو بطور مثال، دلیل اور حل کے طور پر پیش کرتی ہیں۔

عہد رفتہ کو آواز دیتے ہوئے، بی بی سی ریڈیو کے پیش کردہ پروگرامز کو ماضی سے کریدتے ہوئے، سیربین، سب رس، سائنس کلب، جرنیلی سڑک، وسعت اللہ کی رپورٹ، تبصرہ، کھیل کے میدان سے، خطوط پڑھنے کا پروگرام و دیگر بے شمار پروگرامز کو بطور مثال دہراتی ہیں اور میزبان پروین آپا، شمیم باجی، سدھو بھائی، سارہ نقوی، علی نقی جامی، علی رضا عابدی و دیگر کے نپے تلے شیریں لہجے کو فروغ دینے کی خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں شائستگی رواداری اور برداشت کے چلن کو عام کرنے کے لئے ایسے پروگرامز کا ہونا نہائیت ضروری ہے۔

جس میں لہجے کی چاشنی، لفظوں کی مٹھاس، دھیمے انداز، الفاظ کا انتخاب ایسا کہ سننے والے کی روح میں اتر جائیں۔ اور طرح طرح کی معلومات خود بخود سامعین و ناظرین کے شعور کا حصہ بنتی جائے۔ بچوں اور بڑوں کے لئے یکسر تربیت گاہ ہو جس سے گفتگو کرنے کے فن میں مہارت پیدا کی جاسکے۔ الفاظ، تلفظ، لہجہ اور محفل نشست و برخاست کے فن کو سیکھاجاسکے۔ اور آج کے میڈیا سے بچوں کو سیربین جیسے سنجیدہ پروگرام سے شستہ لہجہ، تلفظ، الفاظ کا چناؤ اور شائستگی منتقل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

مگر ہم ٹھہرے مصالحے دار چٹ پٹی خبروں کے رسیا۔ اور اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم یہ اپیل زوجہ محترمہ کے آگے رکھنے کی ہمت نہیں پاتے اس لئے ہم نے یہ مضمون تمام میڈیا کو بدلنے کے لئے باندھ لیا ہے۔ ویسے گمان غالب ہے کہ اگر دوزانو ہو کر دست بدست محترمہ سے عرض کریں تو ہو سکتا ہے وہ رد نہ کریں۔ چونکہ معاملہ بچوں کی عملی تربیت کا بھی ہے اور ہماری عافیت بھی اسی میں ہے کہ ان کی بات کو بالکل درست مان کر ان کے کہے پر چلا جائے۔ زوجہ سے نہ سہی، لیکن میڈیا سے تو استدعا برملا کی جاسکتی ہے کہ کبھی دورپار کا رشتہ تو پرنٹ میڈیا سے ہمارا بھی رہا ہے۔ جو منکوحہ ہونے کا تو نہیں، البتہ ایک بڑے گروپ ( ماضی میں حکومتیں بنانے اور گرانے کے دعویدار) کی رپورٹنگ تک ہی محدود سہی۔

نیوز چینلز کے صرف دو پہلو بارے بات کریں گے۔ نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز و بریکنگ نیوز اور دوسرا جرائم یا اصلاح معاشرہ کے حوالہ سے جو پروگرامز ترتیب دیے جاتے ہیں۔

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے اس ضمن میں قوائد و ضوابط وضع کررکھے ہیں جس کا اطلاق گاہے گاہے کچھ چینلز پر نظر بھی آتا ہے۔ تمام چینلز نے آواز کو پہلے کے مقابلے میں نیچا تو کیا ہے لیکن قابل ستائش اب بھی نہیں۔ بلکہ اس کا حل کچھ چینلز نے یہ نکالا ہے کہ مقابلے کے میدان میں ڈٹے رہنے کی پہلی شرط، رعب دار لہجہ، تیکھی و کراری آواز اور لفظوں کے نشتر منتخب کرکے بریکنگ نیوز اور ہیڈ لائینز بناؤ۔

پھر سب سے پہلے خبر دینے کا راگ تواتر سے الاپتے رہو۔ لیکن غلط خبر کی معذرت سے استثنا حاصل ہے چینلز والوں کو۔ زیادہ تر چینلز کا ہیڈ لائنز اور بریکنگ نیوز کا انداز بیاں، آواز کی گھن گرج، زور دار لہجے کے ساتھ ذہنوں پر لفظوں کی سنگ باری کے سوا کچھ نہیں۔ چینلز والے تو موسم کی خبر بھی ایسے نشر کرتے ہیں کہ بارش کی، گرمی کی خبر، موسمیاتی شدت سے زیادہ سخت لہجے یا خدا نہ خواستہ خدا کی طرف سے زیادتی محسوس کروا کے دم لیں گے۔

معاشرہ میں برداشت کا چلن ویسے بھی کم ہے۔ اس پر چینلز کی یہ روش عدم برداشت کو بڑھانے کا باعث ہے۔ مقابلے کی دوڑ سے الجھتے نیوز چینلز مقامی و ہمسایہ ممالک کے چینلز سے مقابلے کی دوڑ میں بہت سی خرابیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ بعض چینلز تو ہمسایہ ممالک کو منہ توڑ جواب دینے کی غرض سے گرجتے برستے، مار دھاڑ، جنگ و جدال کے لہجے میں بم گراتے نظر آتے ہیں۔ سماعتوں پر گراں گزرتے، چیختے دھاڑتے، زور لگا کر خبروں کی ہیڈ لائن کو جاندار بناتے چینلز، سماعتوں سے ٹکراتی قہر آلود آوازیں، خبریں پہنچانے کا فریضہ کم چینل کی ریٹنگ بڑھانے کا زیادہ کرتے ہوں گے؟ گرجتے برستے، لفظی جنگ و جدال، دھمکی آمیز لہجہ شاید میڈیا منڈی میں سیٹھ کا منافع بڑھانے کا باعث بھی بنتا ہو؟ لیکن عوامی تربیت کے لحاظ سے کسی بھی معاشرہ کے نوجوانوں اور بچوں کے لئے مشعل راہ نہیں ہو سکتا۔

ہمسایہ ملک میں بننے والی ایک فلم میں میڈیا کے منفی کردار کو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا تھا۔ ”پیپلی لائیو“ نامی خوبصورت طنزیہ فلم انوشہ رضوی کی تحریر اور ڈائریکٹر کے طور پر 2010 میں ریلیز ہوئی۔ صحافتی پس منظر کی حامل انوشہ رضوی نے انڈین کسانوں کی مشکلات، سیاست دانوں کے کردار، اور سب سے بڑھ کر میڈیا مالکان کے کردار کو ایکسپوز کیا ہے۔ ہر وقت بریکنگ نیوز کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رپورٹر، کان پڑی آواز کو خبر اور پھر رائی کا پہاڑ بناتا میڈیا سیٹھ کا منفی پہلو بہت خوبصورتی سے عکسبند کیا۔

دوسرا جرم اور اصلاح کے حوالے سے نشر ہونے والے پروگرامز کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ ہر جگہ عدالت لگائے اینکرز، حدود قیود سے باہر، نفرت سے بھرپور لب و لہجہ اپنائے ہر کیس کو نتیجہ خیز بناتے نظر آتے ہیں۔ جرم سے نفرت کی آگاہی دینے والے پروگرامز بھی ہمسایہ ملک کی چربہ سازی پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ پروگرامز زیادہ تر ایک ہی لہر یا ڈگر پر نظر آتے ہیں۔ چینلز بھیڑ چال کی طرز پر جعلی عاملین، ملاوٹ، بچوں کی گمشدگی، دھوکہ، فراڈ، قتل جیسے واقعات کو یکساں ترتیب دیتے نظر آتے ہیں۔

بجا طور پر یہاں بھی مدھم اور تہذیب یافتہ لہجے کا فقدان نظر آتا ہے۔ پروگرامز کے میزبان یا رپورٹر جب تک زبان اور لہجے میں سختی و کرختگی نہ شامل کرلیں ہر پروگرام کو ادھورا تصور کیا جاتا ہے۔ ”نفرت جرم سے، مجرم سے نہیں“ کے سلوگن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھر پور نفرت غصہ اور تعصب سے ملزمان سے بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بھائی آپ تحقیقاتی رپورٹر کی حیثیت سے ایسے سوالات اٹھائیے کہ جرم اور مجرم کا پتہ چل سکے۔

آپ سوالات کی بجائے رعب و غصہ دکھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ تحمل مزاجی رپورٹرز کا خاصا اور سوال ہتھیار ہوتا ہے۔ آپ کبھی ہاتھ اٹھانے رعب جھاڑنے یا ڈرانے کے علاوہ عدالت کے اختیارات استعمال کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ شاید آپ بھی نوکری کے ہاتھوں مجبور یہ کام کررہے ہوں تو ذمہ داران ادارے مجبور نوکر کے سرمایہ دار سیٹھ کو بولنے کے ہنر سے متعلق ضابطہ اخلاق کی فراہمی اور پاسداری یقینی بنائیں۔

عام ہوٹلوں، دکانوں، پارکوں، ڈاکٹرز، چھوٹے کارخانوں، بیوٹی پارلرز، تھانوں، حکیموں، وغیرہ سے جو سلوک آپ کرتے نظر آتے ہیں ان اختیارات کے مجاز آپ کیسے ہیں۔ آپ کا کام حقوق و فرائض سے آگاہی اور غلطی کی نشاندہی کرنا ہے باقی کام ملکی اداروں کا ہے۔ ایسی بڑھکوں، جوش اور ولولہ سے عوام تو ضرور متوجہ ہوتے ہیں اور پھر کئی لوگ موبائل ہاتھ میں اٹھا کر اصلاح کی غرض سے ویسی زبان و لہجہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ عدالتیں لگا کر فیصلے نہ کریں۔ اپنا کام ایمانداری اور خوبی سے انجام دیتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).