بینظیر بھٹو اسپتال راولپنڈی: اسٹریچر دو


یہ بالکل وہی دن تھا جب ٹی وی اور سوشل میڈیا پر حکومتی عہدیدران اپنی ایک سالہ کارکردگی کا جشن منا رہے تھے، ہر طرف ہریالی و شادابی کے شادیانے بج رہے تھے، گزشتہ ادوار پر لعن طعن جاری تھی سیاسی وفاداریوں میں دھنسا بے سمت ہجوم خوب واہ واہ کر رہا تھا۔

اسی ہجوم میں شامل ایک مریض کی عیادت کرنے راولپنڈٰی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال بینظیر بھٹو پہنچا. مریضوں کا جم غفیر تھا افرتفری کا عالم تھا۔ اسی اثنا میں او پی ڈٰی کے مرکزی دروازے پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ایک دوسرے کے دست و گریباں تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ لڑائی اسٹریچرز پر ہورہی ہے۔ معاملات عقل و فہم سے بالاتر تھے، اسٹریچر دینے پر مامور نجی سیکورٹی کمپنی کے گارڈ کو مکمل طور پر ہجوم نے گھیرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں درجنوں شناختی کارڈ جمع کر رکھے تھے۔ میں وہاں سے ایم ایس صاحب کے پاس گیا جہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس اسپتال میں ہزاروں مریضوں کے لیے صرف 10 سے 15 اسٹریچرز ہی دستیاب ہیں۔

حبس اور شدید گرمی میں بلکتے ہرعمر کے افراد اسٹریچر کے لئے ترس رہے تھے۔ ایک ضعیف العمر بابا جی سے ملاقات ہوئی جنہوں نے آپریشن کے ٹانکے کھلوانے تھے اور درد سے بے حال تھے۔ وہ بتانے لگے کہ ”پچھلے تین دنوں سے آ رہا ہوں صبح سے شام اسٹریچر کے لئے کھڑا رہتا جب کوئی امید بندھتی ہے تو او پی ڈی کا ٹائم ہی ختم ہو جاتا اور معاملہ اگلے دن پہ چلا جاتا ہے۔“ قارئین کرام جب کوئی ایک اسٹریچر خالی ہوتا تو ہر چیز سے بے پروا ہو کر دھکے دیتے ہوئے جھپٹتے۔ المختصر یہ ہے کہ اسٹریچر کے ٹائروں سے لے کر مریض کے لیٹنے والی جگہ تک عوام چییوں ٹیوں کی طرح چمٹ جاتی۔

وہاں ڈیوٹی پر مامور شخص نے بتایا کہ کئی لوگوں کی اسٹریچر کی باری آنے میں ہفتہ بھی لگ جاتاہے۔ لوگ نماز فجر ادا کرنے کے بعد اسٹریچر کے لئے جمع ہونا شروع ہو جاتے اور اجالا ہونے سے پہلے مجمع ہجوم میں تبدیل ہو چکا ہوتا۔ بابا جی کے ٹانکوں سے خون رس رہا تھا کیونکہ ٹانکے کھلوانے کے لئے دی گئی تاریخ تلاش اسٹریچر کی نذر ہو چکی تھی۔

دنیا کے بہترین نظام صحت کے نعرے لگانے والے ریاست مدینہ کے دعویدار تو شاید کبھی اس خطہ سے علاج نہ کروائیں لیکن ایک سالہ کارکردگی کا راگ الاپنے والے حکمرانوں سے عوام الناس روٹی، کپڑا، مکان کی شاندار پذیرائی کے بعد آج فقط ایک اسٹریچر کی استدعا کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).