وادی سون کے محرم دیو کی تلاش میں (1)۔
وادی سون میں پہلی باضابطہ ہائیکنگ مہم
یہ ایک عام دنوں جیسا ایک دن ہی محسوس ہوتا تھا جب ہم نے وادی سون میں پہلے باضابطہ ہائیکنگ ٹرپ کا آغاز کیا ۔ ہم سب بہت پرجوش تھے ۔ وقار اور عثمان نوجوان لڑکے تھے ابھی کالج میں تعلیم کا آغاز کیا تھا تو آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے اور بہت تیز قدم اٹھاتے تھے ۔ احمد ملک سوفٹ ویئر انجینئر ہے اور دن میں بیس گھنٹے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا رہتا ہے لیکن پر عزم بہت لگ رہا تھا آہستگی سے قدم اٹھا رہا تھا ۔
نبیل اور میں دھیمے قدموں سے چل رہے تھے اور سامنے والے پہاڑوں کی جانب دیکھ رہے جو ہم نے آج سرکرنے تھے ۔ نبیل اشاروں سے مجھے بتا رہا تھا کہ ہم نے کس پہاڑ پر چڑھ کر دوسری جانب اترنا ہے اور میں ان دیکھے نظاروں کو دیکھنے کے لئے بے چین تھا ۔ اور ہمارا لیڈر ، وادی سون کی پہلی ہائیکنگ ٹیم کا سرخیل اپنے آپ میں گم مسکراتے ہوئے چلتا تھا ۔
ہمارے لیڈر کو وادی ہنزہ میں ایک ہائیکنگ ٹرپ کے دوران کافی اونچائی سے چھلانگ لگانا پڑی تھی جس کی وجہ اس کے ایک پاؤں کی ایڑی میں تھوڑا فریکچر آ گیا تھا ۔ جس کی وجہ سے کافی عرصہ ہائیکنگ سے دور رہنے کے بعد آج یہ اس کا پہلا ٹرپ تھا ۔ ہمارے یوں اکٹھے کرنے میں ہمارے لیڈر عدنان عالم اعوان کو ہی تمام تر کریڈٹ جاتا تھا ۔ عدنان عالم اعوان کو شروع ہی سے فطرت سے لگاؤ رہا ہے ۔ بچپن سے ہی اکیلے وادی سون کے کٹھن رستوں پر ٹریکنگ کرتے رہے ہیں ۔ ایک لون رینجر کی مانند انہوں نے ساری وادی سون کئی بار سر کر رکھی ہے ۔ اس کے ایک ایک گوشے سے شناسا ہیں ۔ وہ خود کو بہت خوش قسمت گردانتے ہیں کہ آرکیالوجی سے ان کو بچپن سے لگاؤ رہا ہے اور ان کو سرکاری نوکری بھی ایسے ہی ڈیپارٹمنٹ میں ملی ۔
عید سے ایک دن پہلےعدنان عالم نے جلے والی سے براستہ محرم دیو پہاڑ پوٹھا گاؤں تک ہائیکنگ ٹرپ کی ایک تصویر فیس بک پر شیئر کی ۔ میں نے سرخ لائن لگے ہوئے روٹ کو دیکھا ، 10 کلو میٹر کا فاصلہ دیکھا اور اپنے بس سے باہر سمجھتے ہوئے محض لائک کر دیا ۔ کچھ لوگوں نے عدنان عالم کی ہمت کو داد بھی دی ۔ کسی نے ساتھ چلنے کا عندیہ بھی دیا ۔
وادی سون کو اگر سرسری نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کم بلندی والے پہاڑوں پر مشتمل ایک عام سی وادی دکھائی دیتی ہے لیکن جب آپ وادی سون کو ایک سیاح ، آرکیالوجسٹ اور مہم جو کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وادی کے نئے سے نئے راز آپ پر عیاں ہونے لگتے ہیں ۔ وادی کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ وادی میں کئی ایسے قدیم قلعے ایسے ہیں جن کی تاریخ کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔ جہاں پر لمبی پتھریلوں سلوں سے بے شمار کمرے بنائے گئے تھے ۔ بدھ مت کے دور میں وادی سون میں بدھ ازم کے نشانات ابھی بھی قائم و دائم ہیں اور سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں ۔
عید کا دوسرا روز تھا ۔ پہلا روز تو قربانیوں میں گذر گیا ۔ دوسرے روز قربانی کے گوشت سے انجوائے کر رہا تھا کہ نبیل کا فون آ گیا ۔ عید کی مبارک کے بعد عدنان عالم کے ساتھ ہائیکنگ پر چلنے کے بارے پوچھا ۔ بتایا کہ اب اتنی طویل ہائیکنگ اپنے بس سے باہر ہے ۔ اس نے تھوڑا اصرار بھی کیا ۔دل تو بہت مچل رہا تھا مگر ہمت نہیں ہو رہی ۔ میں نے بہانے بنائے ۔ شام ہوئی تو عدنان صاحب کا میسج آ گیا ۔ اعجاز بھائی صبح ہائیکنگ پر چلنا ہے آپ نے ۔ ایک بجے تک نوشہرہ پہنچ جایئے گا ۔ میں نے فوراً اؤ کے کاجوابی میسج بھیجا اور نبیل کو کال کی ۔ نبیل خوشاب میں تھا اس سے صبح کا پروگرام بنایا ۔ نبیل کے ساتھ پہلے بھی ٹریکنگ کر چکا ہوں ۔ بہت زندہ دل اور باہمت نوجوان ہے ، وادی سون میں کئی ایسی جگہوں پر جا چکا ہے جہاں بڑے بڑے مہم جو جانے سے گھبراتے ہیں ۔ تلاش و بسیار کے بعد اپنے جوگر تلاش کئے ۔ ان کی صفائی کی ۔ ایک خان صاحب کی دکان سے خریدے ہوئے یہ جاگر وزن میں نہایت ہلکے اور ان کا سول نرم ملائم ہے ۔ کئی مہمات میں ساتھ دے چکے ہیں ۔
اگلے دن خوشاب سے نبیل کو ساتھ لیا تو اس نے بتایا کہ اس کا چھوٹا بھائی وقار اور اس کا ایک دوست عثمان بھی ساتھ جا رہے ہیں ۔ دونوں نوجوان بہت پرجوش تھے ۔ ایک بجے سے کچھ بعد نوشہرہ پہنچ گئے ۔ کھانا تیار تھا ۔ کھانا کھانے کے بعد عدنان عالم کے کزن ملک مظہر ہمیں ہمارے سٹارٹنگ پوائنٹ تک پہنچانے آئے ۔ ان کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم وہاں تک ٹریکنگ کرتے ہیں جہاں ہماری گاڑی جاتی ہو ۔ ہم چھ کا گروپ ہائیکنگ اینڈ ٹریکنگ کے لئے تیار تھا ۔
ہم نے محرم دیو پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنا تھا جو چار ہزار فٹ کی بلندی رکھتی ہے ۔ جس کے بارے بہت سی روایات عام ہیں ۔ وہاں دیو رہتے ہیں ۔ وہاں دیو اغوا ء شدہ پریوں کو قید رکھتے ہیں ۔ وہاں ایک بہت بڑا پتھر ہے جو محرم دیو نے کہیں باہر سے لاکر اس پہاڑ کی چوٹی پر رکھ دیا تھا ۔ یہ پہاڑ بہت دور سے دکھائی دیتا ہے اور وادی سون کے پہاڑی سلسلے میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔پہاڑوں میں گھری اس وادی کا سب سے اونچا پہاڑ سکیسر ہے اور دوسرا کم اونچائی والا محرم دیو ہے
معلوم نہیں اس پہاڑ کا نام ’محرم دیو‘‘ کس نے رکھا تھا۔ دیو کے معنی تو بھاری بھرکم وجود کے ہیں جو اس پہاڑ سے ہی ظاہر ہے یا پھر کسی حیران کن ہیولے کے جو پہاڑوں کے اس سلسلے کے ادھر سے ادھر تک پھیلا ہوا ہے لیکن محرم کے کیا معنی۔ ویسے وادی کے لوگ اسے مارم دیو بھی کہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ’مارم‘ کے کچھ معنی ہوں۔
جلے والی گاؤں سے نکلے تو آہستہ آہستہ پگڈنڈیاں غائب ہونے لگیں ہر طرف پھیلی ہوئی سنتھے کی جھاڑوں سے مخصوص خوشبو کافی خوشگوار لگ رہی تھی۔ پہلے پہاڑ کے قریب پہنچے تو عدنان عالم نے بتایا کہ یہاں پر ایک چشمہ بھی بہتا ہے لیکن آج کل بارشوں کی وجہ سے پانی بہت کم ہے ۔ چشمے میں پانی واقعی کم تھا ہم چشمے کے ساتھ ساتھ اوپر کو چلے ۔ پتھروں پر چڑھتے ہوئے تھوڑا اوپر گئے تو آگے رستہ بالکل نہیں تھا ۔ دائیں طرف کھائی تھی اور اس کے پرے سیدھی دیوار کی مانند پہاڑ تھا ۔ ہمارے بائیں طرف ڈھلوان سی دکھائی دے رہی تھی ہم نے اسی طرف چڑھنے کا فیصلہ کیا ۔ کم از کم میرے لئے یہ فیصلہ کچھ اچھا پیغام نہ تھا ۔ یہ بالکل 70 درجے کا اینگل لئے سیدھی سی چڑھائی تھی ۔ کافی لمبی سی گھاس تھی جس کے سہارے کچھ دیر تو بہت آرام سے چڑھتے چلے گئے لیکن کچھ ہی دیر بعد یوں ہونے لگا کہ کبھی گھاس بار بار ہاتھوں سے پھسل جاتی اور کبھی پاؤں گھاس پر سے پھسل جاتے ۔ لگتا تھا کئی گھنٹوں سے یہی مشق جاری ہے اور فاصلہ طے بھی نہیں ہوا ۔ بھادوں کی تیز دھوپ اپنا رنگ دکھا رہی تھی ۔ ماتھے سے بہنے والا پسینہ سیدھا آنکھوں میں پناہ لیتا ۔ ارد گرد چند سائے سے محسوس ہوتے تھے جو میری ہی طرح حرکت کر رہے تھے ۔
نہ ان کے چہرے یاد تھے نہ ان کے نام یاد آ رہے تھے ۔ بس وہی خوفزدہ کردینے والی آوازیں سنائی دیتی تھیں جو کسی کے ہاتھ سے گھاس چھوٹ جانے یا پاؤں پھسل جانے پر منہ سے بے ساختہ نکل جاتی تھیں ۔ دو پہر کو پیٹ بھر کر کھایا ہوا لذیذ کھانا اب باہر کو آنے کو بے تاب نظر آتا تھا ۔ سانس تھا کہ قابو سے باہر ہو رہا تھا ۔ پھیپھڑے دہائی دے رہے تھے کہ کئی سالوں کے آرام و سکون کے بعد ان کو کس مصیبت میں ڈال دیا گیا ہے ۔ آگے جانے والے نے اپنے قدم روکے تو میں بھی رک گیا ۔ ماتھے سے پسینہ صاف کرنے کی کوشش کی اور یہ سارا پسینہ پھر سے آنکھوں بھر گیا ۔ چشمہ اتارا ۔ آنکھیں ملنے کی کوشش کی ۔ سانسیں ابھی بھی بے قابو ہو رہی تھیں ۔ طے یہ ہوا تھا کہ نیچے کی طرف نہیں دیکھنا ورنہ وہی ہو گا جو صدیوں سے ہوتا آیا ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتھر کے ہو جاؤ گے اور میں ابھی پتھر کا نہیں ہونا چاہتا تھا ، منہ اٹھا کر یہ دیکھنا چاہا کہ ابھی کتنی مشقت باقی رہ گئی ہے تو اونٹ کے دو کوہانوں کے بیچ وہ فاصلہ اتنا ہی دوردکھائی دیا جتنا اس پہاڑ پر چڑھتے وقت دکھائی دے رہا تھا ۔ گھاس کو ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑے ہوئے نظر یں بے ساختہ دائیں بائیں کے بلند پہاڑوں کا احاطہ کرتے ہوئے نیچے کو چلی گئیں ۔ ایک دم سے چکر سا آ گیا ، جہاں کھڑا ہوا تھا وہیں بیٹھ گیا ۔ دل کی دھڑکنیں مزید بے قابو ہونے لگیں ۔ پہاڑ کی گہرائیاں میلوں نیچے تک دکھائی دے رہی تھیں ۔ دل و دماغ ایک ہی سوال پوچھے جا رہے تھے ۔ کیوں آئے تم یہاں ؟ کسی نے ٹھنڈے پانی کی بوتل میری طرف بڑھائی ، بھائی پانی ۔ اور بھائی ساب ایسے وقت میں پانی پینے سے بھی عاجز دکھائی دیتے تھے۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جان میں جان آئی ۔ اوپر کی طرف دیکھا تو پہاڑی کی چوٹی قریب ہی دکھائی دے رہی تھی ایک بار پھر سے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا ۔ چوٹی کے قریب پہنچے تو وہاں سب خاموش کھڑے تھے ۔ جیسے ہی چوٹی کے دوسری طرف جھانکا ۔ ہمارا دل بھی ڈوب گیا ۔ جیسی چڑھائی ہم چڑھ کر آئے تھے اس سے زیادہ ڈھلوان دوسری طرف تھی ۔ اترنے کا اور کوئی رستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ مزید دل شکن سانحہ یہ تھا کہ اتنی خطرناک ڈھلوان سے اترنے کے بعد سامنے پھر ایک پہاڑ پر چڑھنا تھا تب ہم دور دکھائی دیتے ایک گاؤں تک پہنچ سکتے تھے ۔ اور پھر ہم بھی اپنے دوستوں کی مانند خاموش ہو کر بیٹھ گئے ۔ کچھ وقت یونہی گزر گیا ۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی تھی کہ ہمارے نوجوان دوست نوشہرہ سے ہی ٹھنڈے یخ پانی کی کافی ساری بوتلیں لے کر چلے تھے ۔ جنہوں نے ہمارا ساتھ خوب دیا ۔
- حاصل زیست۔ ایک مطالعہ - 16/05/2023
- جناح ہاؤس لاہور۔ کیا واقعی کوئی جناح ہاؤس لاہور میں بھی تھا؟ - 14/05/2023
- کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہیں؟ - 14/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).