کشمیر! جنوبی ایشیا کا فلیش پوائنٹ


مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست سے ظلم و ستم کا جونیاکھیل شروع ہوا ہے وہ ہنوز جاری ہے۔ کرفیو، آنسو گیس، فائرنگ، شیلنگ، پیلٹ گن، بلاجوازگرفتاریاں، بے پناہ تشدد، قابض فوج کی طرف سے شہریوں کو غائب کر دینا، دنیا جہان کا کون سا ایساقہر ہے جو مقبوضہ کشمیر کے مظلوم شہریوں پر ڈھایا نہیں گیا لیکن آزادی کی طلب ایک ایسا نشہ ہے جسے ظلم اور جبر کی کوئی اذیت ختم نہیں کر سکی۔ نہیں معلوم کشمیریوں پر جاری جبر کی یہ طویل سیاہ رات کب ختم ہوگی۔

دراصل مودی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 اور 35 Aختم کر کے نہ صرف بھارتی اپوزیشن کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کے نشتر چلائے بلکہ پاکستان اور چین کو بھی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ عالمی برادری کہ توجہ اس طرف مبذول کروائے کہ کشمیر دنیا کا فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے بھارتی آئین کی شق 370 اور 35 A کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز کشمیری قیادت کے علاوہ پاکستان یا آزاد کشمیر کی کشمیری قیادت نے بھی کبھی تسلیم نہیں کیا تھالیکن ان شقوں کے خاتمے نے یہ ثابت کیا ہے کہ بہرحال ان کی کچھ نہ کچھ اہمیت ضروربن چکی تھی۔

عالمی سیاست کو دیکھا جائے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ صرف اور صرف کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر اگر حل ہوجائے تو دونوں ملکوں میں پانی کا جھگڑا بھی خود بخود حل ہو جائے گا۔

دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو اس وقت صرف دو مسائل ہی حل طلب ہیں ایک کشمیر اور دوسرا فلسطین۔ دونوں میں قانونی اور اخلاقی طورپر مقامی آبادی کا موقف حق پر مبنی اور مضبوط ہے لیکن طاقت کا اندھا استعمال اور عالمی استعمار کے مفادات مقامی شہریوں کے حقوق اور ان کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا جائزہ لیا جائے تو یہ برطانیہ کا پھیلایا ہوا فساد اورتقسیم بر صغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے جس کے تین فریق بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام ہیں۔ پاکستان اور کشمیری عوام شروع دن سے اس مسئلے کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ عالمی سیاست یا ملکوں کے معاملات میں قانون یا اخلاقیات کی بجائے ”طاقت“ ہی سب کچھ ہوا کرتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں معاشی حیثیت، فوجی قابلیت، علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں صلاحیت کے علاوہ عالمی برادری میں اثرورسوخ کے ملغوبے کا نام ”طاقت“ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس سوائے فوجی قابلیت کے سوا کچھ بھی نہیں اور فوجی قابلیت میں بھی سوائے ایٹمی طاقت کے اورکیا ہے؟ طویل عرصے کی روایتی جنگ کے لئے آپ کو روایتی ہتھیاروں میں خود کفالت کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی خود کفالت اور استحکام کی ضرورت ہوتی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال کیا ہے یہ سمجھانے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہر گز نہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں ”موقع پرستی“ کوئی بری بات نہیں لیکن ہم شاید اسے گناہ سمجھتے ہیں اس لئے اس کو شجر ممنوعہ قراد دے رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہمیں متعدد مواقع میسر آئے لیکن ہم نے ”توکل“ کی بدولت اسے کل پر اٹھارکھا۔

کشمیر کے حصول کا پہلا موقع وہ تھا جب قائد اعظم محمد علی جنا ح نے پاکستانی فوج کو کشمیر کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا لیکن پاکستانی فوج کے انگریز سربراہ نے ان کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ اگر پاکستانی فوج کا برطانوی سربراہ اپنے سویلین سربراہ کا حکم ماننے سے انکار کر کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ہوتا تو آج جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے خوشحال خطہ ہوتا۔

کشمیر کے حصول کادوسرا موقع وہ تھا جب بعض ذرائع کے مطابق سردار پٹیل نے قائد ملت لیاقت علی خان کوپیغام بھیجا کہ اگر پاکستان حیدرآباد دکن سے دستبردار ہوجائے تو بھارت کشمیر پر اپنا دعوے سے دستبردار ہوجائے گا لیکن نواب لیاقت علی خان نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا اور دونوں ریاستوں پر پاکستانی حق کا اصرار جاری رکھا، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

ُپاکستان کو کشمیرکے حصول کا تیسرا موقع 1962 میں ملا جب بھارت چین کے ساتھ جنگ میں مصروف تھا اور چین بھارت کی بری طرح پٹائی کر رہا تھا۔ چین پاکستان کو کھلے عام تو کہہ نہیں سکتا تھا لیکن خفیہ طریقے سے پیغامات بھجوائے گئے کہ پاکستان کو سری نگر میں پاکستانی پرچم لہرانے کے علاوہ کچھ زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن اس وقت پاکستان پر ایک ہینڈسم وردی والا صدر مسلط تھا اور امریکہ کا جادواس کے سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ امریکہ نے بھارت کے کہنے پر ہینڈسم پاکستانی صدر کو پچکارا اور پاکستان نے یہ ٹرین مس کر دی۔ تین برس بعد اسی صدر نے ہیرو بننے کے چکر میں پاکستان کو آپریشن جبرالٹر کے نام پر ایک جنگ میں جھونک دیاجس کی یاد ہم ہر سال چھ ستمبر کو مناتے ہیں اور اس آپریشن کا بدلہ اندرا گاندھی نے ڈھاکہ میں لیا۔

1999 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ میں ایک خوبصورت صدر مقتدر تھا۔ اس نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو بہت لالچ دیا لیکن نواز شریف جوابی ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو ”آنے والی تھاں“ پر لے آئے۔ یہ مسئلہ کشمیر کے حل کا چوتھا موقع تھاجب واجپائی واہگہ کے راستے لاہور آئے اورمینار پاکستان پر اعلان لاہور ہوا۔ لیکن ہمارے ایک کمانڈو کو واجپائی کو فتح کرنے کی سوجھی اور وہ کارگل پر چڑھ دوڑے۔ واجپائی کیا فتح ہونا تھا الٹا کھٹمنڈو میں اس سے ہاتھ ملانے اٹھ کر اس کی نشست پر جانا پڑا لیکن اس واجپائی نے پھر بھی کمانڈو کو آگرے سے نامراد واپس بھیجا۔

قدرت نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کا ایک موقع اوردیا تھا۔ پرویز مشرف کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ماشا اللہ حیات ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب تھے لیکن جسٹس افتخار چودھری ہمیں لڑ گئے۔ شاید وہ کسی مرحلے پر یہ بھی بتا دیں کہ نیاز اے نائیک کی موت کا بھی اس معاملے سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اب حل کیا ہے؟ جواب حاضر! کچھ مشکل نہیں، طریقے دو ہی ہیں مختصراً عرض کیے دیتا ہوں۔

پہلا تو یہ کہ پاکستان خود کو معاشی طور پر اس قدر مستحکم بنا لے کہ عالمی برادری کی پاکستان کے ساتھ مفادات کی وابستگی انتہائی گہری ہو جائے۔ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال انتہائی پرکشش ہے، گوادر اور سی پیک کے ساتھ ملایا جائے تو پاکستان پوری دنیا کے ساتھ وابستہ ہو کر نہ صرف خود کی غربت ختم کر سکتا ہے بلکہ خطے اور دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا کے لئے نا ممکن ہو گا کہ وہ عالمی فورمز پر پاکستانی مفادات کے تحفظ کے خلاف کسی طاقت کے ساتھ کھڑی ہو۔ لیکن معاف کیجئے گا یہ کام صبر طلب ہے اور اس کے لئے جمہوریت کا تسلسل بھی ضروری ہے۔

دوسرا طریقہ جنگ کا ہے، کوئی بھی ذی ہوش انسان جنگ کا حامی نہیں ہو سکتا لیکن بھارت نے مقبوضہ وادی میں طاقت کے اندھے استعمال اور انسانی حقوق کی پامالی سے جو حالات پیدا کر دیے ہیں اس سے جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے خطرات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارت بہرحال پاکستان سے بڑی معاشی طاقت ہے لیکن پاکستان کے پاس موجودہ حالات میں دو چار دن یا ہفتے دس دن سے زیادہ روایتی جنگ لڑنے کی سکت نہیں ہے۔

طویل روایتی جنگ کے لئے بھی مستحکم معاشی طاقت ہونا ضروری ہے۔ تو معاملہ پھر وہیں معاش پر اٹک گیا ہے اور یہی ہماری کمزوری ہے۔ خاکم بدہن میں پہلے بھی یہ تحریر کر چکاہوں کہ بھارت کی بدمعاشی اور پاکستان کی معاشی کمزوری لیکن ایٹمی طاقت اور پھر دونوں ملکوں میں بے بصیرت سیاسی قیادت اس خطے کو ایٹمی جنگ کی طرف لے کر جارہی ہے۔ کوئی معجزہ ہی ہے جو جنوبی ایشیا کو تباہی سے بچا لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).