سیکولرزم کی اصطلاح پر کٹھ ملاؤں کے اعتراضات کی حقیقت


دوسرا سوال: ان اصطلاحات کوانہی معنوں میں لیا جائے جوکہ مغربی فلاسفروں نے وضع کیے ہیں؟

میری گذارش یہ ہے کہ سوشلسٹ، ہیومنسٹ، سیکولر، ڈیموکریٹ وغیرہ وغیرہ اصطلاحات، اہلیان مغرب کے نزدیک انسانی کردار کی خوبیاں سمجھی جاتی ہیں۔ ان اصطلاحات کے موجدین نے ان کو انسانیت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہی وضع کیا تھا۔ چونکہ میں نہیں سمجھتا کہ انسانی کردار کی کوئی خوبی ایسی ہو جس کا مبدا اول اسلام نہ ہو، چنانچہ میں بحیثیت مسلمان کے، یہ دعوی کرتا ہوں کہ ہیومنزم ہو، سوشلزم ہو، سیکولرزم ہو، ڈیموکریسی ہو یا اور کوئی قومی یا انفرادی انسانی خوبی ہو، اس کی اصل اور مکمل شکل میرے پاس پہلے سے موجود ہے اور اس کا اصل مصداق میں ہوں۔

رہی یہ بات کہ چونکہ یہ اصطلاحات جنہوں نے ایجاد کی ہیں تو ان کی وضاحت کو ہی اصولاً تسلیم کیا جائے تو اس پربھی خاکسار کی رائے الگ ہے۔

بعض اصطلاحات عام انسانی زندگی سے متعلق ہوتی ہیں۔ ”گڈ مینرز“ یا ”ایٹی کیٹس“ جیسی انگریزی اصطلاحات کے ضمن میں اگر کسی نے پہلی کتاب لکھی ہے تو اس کو شاباش دینے کے بعد، میں یہ ضرور کہوں گا کہ ”گڈ مینرز“ کی اصلی اور مکمل شکل میرے پاس پہلے سے موجود ہے۔ میں کسی کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ انگریزی اصطلاح ”سول ایٹی کیٹس“ کا مالک بن جائے۔ سیکولرزم، کسی بندے کے نام پر وضع کردہ ٹرم نہیں بلکہ ڈیموکریسی کی طرح، ایک عمومی صفت ہے پس اس کی روح کوبرقرار رکھتے ہوئے، اس کا الگ مفہوم اور طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔ البتہ بعض اصطلاحات کسی شخصیت کے مخصوص فلسفہ پرمبنی ہوتی ہیں جیسا کہ ”مارکس ازم“ تو مجھے کوئی شوق نہیں کہ اس کو اسلامی اصطلاح ثابت کروں (اگرچہ علامہ اقبال، جناب مارکس کو ”پیغمبر بے کتاب“ کہہ گئے ہیں ) ۔

تیسرا سوال: سیکولرزم بارے عوام میں غلط مفہوم رائج ہے چنانچہ اشتباہ سے بچنا چاہیے۔

اس پرمیری گذارش یہ ہے کہ ہم اس کے پابند نہیں کہ سوشلزم، ڈیموکریسی اور سیکولرزم سے عوام کیا مراد لیتے ہیں؟ بلکہ ہم عوام کو اس کے درست مفاہیم دینے کے پابند ہیں۔ کسی مغربی فلسفی نے اگر کسی اخلاقی یا سیاسی ٹرم کی ایک تشریح کی ہے تو میرے لئے اس کی بات قرآن وحدیث نہیں ہے کہ میں اس سے الگ اپنا نکتہ نظر پیش نہ کرسکوں۔ ”پولیٹکس“ بھی انگریزی لفظ اور اصطلاح ہے۔ اس پہ خود ان کے ہاں کتنے مختلف نکتہ ہائے نظر موجود ہیں۔ چنانچہ، عوام ایک عرصہ دراز سے اگر سیکولرزم کا غلط مفہوم سمجھے ہوئے ہیں تو اس بنا پر میں اس ورژن کو نہیں چھوڑ سکتا جو اپنے تئیں درست سمجھتا ہوں۔

عوامی غلط فہمی، صرف مغربی اصطلاحات کا ہی قضیہ نہیں۔ دین ِ اسلام میں بھی، مثلاً، پہلے ایک شرعی اصطلاح، ”جہاد“ کو ”قتال“ کے معنوں میں لیا گیا اورعوامی نعرہ بنا کہ ”کافروں کا ایک علاج، الجہاد، الجہاد“۔ جب پچھلی صدی کے شروع میں، تبلیغ والوں نے جہاد کے اصل معنی عوام کے سامنے پیش کیے تھے تو بڑے بڑے علماء حضرات، بجائے اس لفظ کی حقیقت سمجھنے کے، تبلیغ والوں کو قتال کے منکر قرار دینے لگے تھے۔ (خدا بھلا کرے حضرت بش کا کہ اس کے ڈنڈے نے وہابی مولویوں کو بھی جہاد اور قتال کا فرق سمجھا دیا) ۔

چنانچہ اگر سیکولرلفظ سے عوام کو اشتباہ لگ جاتا ہے تو ان کی غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے۔ (ویسے ہمارے عوام روزی روٹی سے ہی فارغ نہیں کہ ان کو ”اشتباہ“ لگنے کا اندیشہ ہو۔ یہ اشتباہ صرف مولوی صاحبان کو لگا کرتا ہے ) ۔

برسبیل تذکرہ، یہ جو مولوی صاحبان، خدا کی ایک ذاتی صفت یعنی ”مولانا“ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کیا کرتے ہیں، وہ اس ”اشتباہ“ کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ لفظ ”مولانا“ خدا نے قرآن میں صرف اپنے لئے خاص کیا ہے۔ مانا کہ عربی لغت میں اس کے بارہ معنی ہیں مگر یہ کہ پہلی صدی سے لے کرآج تک، عالم عرب کے علماء نے کبھی اپنے لئے یہ لقب اختیار نہیں کیا تو ہندی مولویوں کو کیا ایسی اشد حاجت آن پڑی کہ خدائی صفت کو اپنے نام کا لاحقہ بنائے بغی رزندگی نہیں گزرتی؟

ہم سیکولرز کو ہرگز اس پہ اعتراض نہیں ہے۔ آپ نے اپنے پروفیشن کے لئے جو بھی نام اختیار کیا، ہم اسی سے آپ کو پکارا کریں گے مگربات یہ ہو رہی تھی کہ اگر کسی ”ٹرم“ کے معنی میں اشتباہ پیدا ہوجائے تواسکو ترک کیوں نہیں کردیتے؟ تو معلوم ہونا چاہیے کہ سیکولر ٹرمنالوجی کا ذکر ”مولانا“ والی ٹرم کی طرح قرآن میں نہیں آیا کہ اس پر ”اشتباہ“ کو سیرئس لیا جائے۔

آئندہ کسی تحریر میں، ان شاء اللہ، مفصل عرض کیا جائے گا کہ اسلام ہی حقیقی سیکولرمذہب ہے۔ دیکھئے پنجاب میں ہزاروں سال سے گندم بوئی جاتی ہے اور تنور میں روٹی لگائی جاتی ہے۔ بزرگوں کویاد ہوگا کہ ان کی اماں جی تنور میں روٹی لگانے سے پہلے اس پر پیازکترکر لگا دیا کرتی اور پھراس پیازی روٹی پر مکھن لگا کر پیش کیا کرتی تھیں۔ کوئی مجھے بتائے کہ ”پیزا“ اور کیا چیز ہوتی ہے؟ اب اگر کوئی مجھے یہ منوائے کہ ”پیزا“ صرف اٹلی کی ایجاد ہے تو میں کیوں اس کریڈٹ سے دستبردار ہوجاؤں حالانکہ یہ چیز میرے پاس ان سے بھی پہلے موجود رہی ہے؟

اسلام ایک لفظ ہے۔ اس کے ایک لغوی معنی ہیں۔ مگر یہ ایک انسانی کردار بھی ہے۔ اور یہ ایک نظام زندگی بھی ہے۔ اسی طرح، سیکولرزم، ایک لفظ ہے جس کی لغوی شتریح کے بارے میں یہ مضمون لکھا گیا۔ مگریہ ایک انسانی کردار کی تصویر بھی ہے اور ایک نظام حکومت بھی ہے۔ اس کے باقی دونوں پہلو، الگ مضامین میں لئے جائیں گے، ان شاء اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2