سیکولرزم کی اصطلاح پر کٹھ ملاؤں کے اعتراضات کی حقیقت


کیا آپ جانتے ہیں کہ کٹھ ملاؤں کی کمک کے لئے ”اسلامسٹ“ حضرات کا دستہ بھی موجود ہے؟ چونکہ کٹھ مولوی کو نور و بشر کے ایشوزکے سوا کسی معاملے کی خبرنہیں ہوتی چنانچہ یہ اسلامسٹ“ بٹالین ان کو جدید معلومات بہم پہنچایا کرتی ہے۔ جیسا کہ چاند پر جانے کی ویڈیو میں اگر جھنڈا لہرا رہا ہے توچاند پہ جانا جھوٹ ہے۔ اور یہ بھی کہ مصر کے اخبار میں خبرچھپی ہے کہ نیل آرمسٹرانگ کو چاند پراترتے ہوئے اذان کی آوازسنائی دی تھی۔ (کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی) ۔

اسی طبقہ نے سیکولرزم کے خلاف گویا ایک برہان قاطع مہیا کی ہوئی ہے کہ اس لفظ کا آکسفورڈ کی ڈکشنری میں ترجمہ دیکھو۔ پس آج کے مضمون میں اس قضیہ کو نمٹانے کو ارادہ ہے ان شاء اللہ۔

دیکھئے، سیکولرزم کی اصطلاح، لاطینی زبان کے لفظ ”سیکولم“ سے ماخوذ ہے جس کا لفظی مطلب ہے ”دنیا“۔

خاکسار اپنے احباب سے عرض کیا کرتا ہے کہ ڈکشنری کی مدد سے فقط ”اشیاء“ کے بارے ہی میں درست مفہوم کا تعین ہوسکتا ہے۔ افعال، کیفیات اور فلسفہ جات کی تفہیم صرف لفظی ترجمہ سے ممکن نہیں ہوا کرتی۔ مثلاً انگوٹھی کوعربی میں ”خاتم“ کہتے ہیں۔ بات اسی ”شئی“ تک ہوتی تو لفظی ترجمہ کافی ہے مگرآپ نے اس کو بطور اصطلاح لینا ہے تو اس پر لغت کی چند سطریں کافی نہیں ہوتیں۔ ایسے امور کو مستند علمی ماخذ کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔

سیکولرزم، چونکہ صرف لفظ ”دنیا“ سے مشتق اصطلاح ہے تو اس کا ترجمہ خاصا مبہم ہے۔ مگر ہمارے ناقدین کا ناٹک دیکھئے کہ اس مبہم یا کثیرالمعنی لفظ کا صرف ایک ترجمہ ”لادینیت“ مختص کردیا اوراسی پراپنا بیانیہ تشکیل دے دیا کہ ”سیکولرزم، اسلام کے مقابل ایک کفریہ عقیدہ ہے“۔ بھائی، عقیدہ وہ چیز ہوتی ہے جو جغرافیائی سرحدوں یا حالات کی بنیاد پرتبدیل نہیں ہوا کرتا۔ جمیعت علمائے ہندکے وہ علماء جو سیکولرزم کی بقا کے لئے خون کا آخری قطرہ بہانے کو تیار ہیں، کیا وہ اسلام کے مقابل کفرکی حمایت پہ کمربستہ ہیں؟ پھر تو ان کو کافر قرار دیا جائے۔

سیکولرزم کی طرح ایک اور انگریزی اصطلاح بھی ہے یعنی ”ڈیموکریسی“۔ صرف لغوی معنی سے اس کی بھی تفہیم ممکن نہیں ہے۔ پتہ نہیں ہماری مذہبی جمہوری پارٹیاں اس کی تشریح کیسے کیا کرتی ہیں مگر بھٹوصاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا تھا کہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں“۔ کٹھ ملاؤں کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ سیدھا سادھا شرکیہ جملہ ہے کیونکہ طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے نہ کہ عوام۔ پیپلزپارٹی سے انتخابی اتحاد کرنے والے مولوی مگر پیٹی بند بھائی ہوا کرتے ہیں تو ان کے خلاف فتوی نہیں لگایا جاتا۔

بہرحال، سیکولرزم کا ترجمہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عرض یہ ہے کہ جب کسی لفظ میں ابہام پایا جائے تو اس کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا متضاد لفظ دیکھ لیا جائے۔ سیکولرزم کا متضاد انگریزی لفظ ہے ”سیکرڈ“ یعنی مقدس۔ یعنی سیکولرزم، تقدیس کے خلاف ایک نظام ہے۔

اب دیکھئے کہ اردو میں پھر وہی مشکل پیش آگئی ہے یعنی لفظ ”تقدیس“ کو لے کر بھی درست مفہوم تک نہیں پہنچ سکتے۔ کیونکہ تقدیس کا الٹ، تذلیل یا تحقیر ہوتا ہے مگرسیکولرزم کسی کی تحقیر کی اجازت نہیں دیتا بلکہ سب انسانوں کے برابر احترام کا درس دیتا ہے۔

کیا آپ ”تقدیس“ اور ”احترام“ کا فرق سمجھتے ہیں؟

مثلاً ایک آدمی، اپنے تعارف میں اپنی پروفیشنل پہچان بتاتا ہے کہ وہ انجنیئر ہے، ڈاکٹر ہے یا عالم دین ہے تو اس کی پہچان کا احترام کیا جائے گا۔ اس کی پروفشنل پہچان کے لئے اس کے نام کے ساتھ ”مولانا“ لگانا پڑتا ہے توہم ضرور لگائیں گے۔ مزید آگے جاکرکوئی آدمی اپنے خاص فیلڈ میں کسی وجہ سے زیادہ بڑا ٹائٹل چاہتا ہے توبھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مثلاً کسی کو کنسلٹنٹ، پروفیسر، شیخ الحدیث کہہ کرعزت دی جائے گی۔ یہاں تک احترام کی حد ہے۔

اب ایک شخص کو ”قطب الاقطاب“ یا ”ولی العصر“ ڈکلیئر کردیا جائے تو یہ اس کی تقدیس ہے اور سیکولرزم، اس تقدیس کا قائل نہیں ہے۔ اس لئے کہ ”قطب“ اور ”ولی“ جیسے پروفیشن ہمیں نہیں سمجھ آتے اورنہ ہم ایسی کسی ڈگری کو تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ کسی کو سلطان العارفین نہ ماننے پر اگر اس کے پرستار، ہم سیکولرز کو توہین اسلام کا مرتکب قراردیں تو ان کی مرضی۔ ( عجب یہ ہے کہ مولوی صاحبان اپنے جس سینئرکی زیادہ عزت کرنا چاہتے ہیں، اس کے نام کے ساتھ جانور کا نام لگانا شروع کردیا کرتے ہیں۔ شیراسلام، بلبل ہند، شاہین خطابت، سگ مدینہ وغیرہ) ۔

سیکولرزم کا مطلب اصلی یہ ہوا کہ حیات اجتماعی میں کسی شخص کی قیمت، تقدس کی بنیاد پہ نہیں لگے گی (اور نہ ہی اس کو مقدس سمجھا جائے گا) ۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر کسی ہستی یا کسی چیز کو کچھ لوگ مقدس سمجھتے ہیں تو سیکولرزکا کام، ان کی تذلیل یا تحقیرکرنا ہے۔ البتہ سیکولر سوسائٹی کے ہاں زمینی حقائق اور ٹھوس خدمات کی بنیاد پر کسی شخص کی قدردانی کی جاتی ہے۔ (یعنی ہم لوگ ایدھی مرحوم کوایسے مولوی صاحب سے زیادہ قابل قدر جانتے ہیں جس نے فقط استنجے کے شرعی مسائل پر کتابیں لکھ رکھی ہوں۔ یہ بات دنیاوی تناظر میں عرض کی ہے۔ مذکورہ مولوی صاحب کو آخرت کے درجات دیے جائیں تو اس سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے ) ۔

بعض مخلص احباب خاکسار کے سیکولرزم بارے موقف پر چند منطقی سوالات بھی اٹھایا کرتے ہیں۔ مثلاً

1۔ اگر سیکولرزم کا معنی باہمی برداشت اور وسعت ظرفی ہے تو یہ انگریزی نام لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس کو سیدھا سادھا رواداری ہی کیوں نہ کہا جائے؟

2۔ ایسے انگریزی الفاظ کا لغوی معنی جو بھی ہو مگراب ان اصطلاحات کوانہی معنوں میں لیا جانا چاہیے جوکہ مغربی فلاسفروں نے وضع کیے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جس اصطلاح کا جو موجد ہو، دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اسی کے وضع کردہ معنوں کو ہی حتمی مانا جائے۔

3۔ ایسی ٹرمینالوجی استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جس کے بارے عوام میں اشتباہ پایا جاتا ہے؟

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا سوالات پر ایک مختصر گفتگو کر لی جائے۔

پہلا سوال: اگر سیکولرزم کا معنی باہمی برداشت اور وسعت ظرفی ہے تو یہ انگریزی نام لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

عرض یہ ہے کہ اگرکسی کو سیکولروغیرہ جیسے انگریزی نام پسند نہیں ہیں اور وہ اس کا کوئی اردومترادف استعمال کرنا چاہتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم، ہم کو سیکولر اصطلاح استعمال کرنا ہی بہترآپشن لگتا ہے۔

بات یہ ہے کہ وسعت ظرفی وغیرہ (جو کہ اردو کے ذاتی الفاظ نہیں ہیں) نوجوان نسل کے لئے اتنے مانوس نہیں ہیں جتنا کہ انگریزی اصطلاحات۔ انٹرنیٹ کی آمد نے انگریزی کو گلوبل لینگوئج بنا دیا ہے، اس لئے انگریزی پیرائے میں بات سمجھنا سمجھانا زیادہ سود مند لگتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ایسی انگریزی اصطلاحات جن کے ذریعہ مولوی صاحبان کو منصب وعہدہ میسر آتا ہو، ان کے نہ تو استعمال پر ان کو کراہت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی درست تفہیم کے لئے آکسفورڈ ڈکشنری سے مدد لی جاتی ہے۔ ”پولیٹیکل پارٹی“ بنانا، ایک مولوی صاحب کو ”سیکرٹری جنرل“ تعینات کرنا، ”ڈیموکریسی“ کی حفاظت کے لئے، مساجد میں ”کانفرنس“ کرانا اور ”ووٹ ڈالنے“ کی شرعی ضرورت پر فتوے لکھنا وغیرہ جیسی سب انگریزی اصطلاحات قبول ہیں تو سیکولرزم کے لفظ میں کیا قیامت پوشیدہ ہے؟

اس بارے ایک ذاتی مجبوری بھی عرض کر دیتا ہوں جس سے آپ کا متفق ہونا ہرگزضروری نہیں ہے۔ یہ خاکسار، جمیعت علمائے ہند کے اولین اکابر سے ایک خاص عقیدت رکھتا ہے۔ ان حضرات نے لفظ سیکولرزم کو استعمال کیا ہے اور انڈیا کی سیکولر آئین سازی میں سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ پس میں اس لئے بھی سیکولرلفظ کا استعمال کیا کرتا ہوں کہ اس سے میرے بزرگوں کی عزت جڑی ہوئی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2