مسز خان کے نام عہد جدید کی ایک بیٹی کا خط


السلام علیکم مسز خان

آپ کا چرچا تو پہلے بھی بہت تھا۔ اب بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ آپ کے دہن مبارک سے جھڑنے والے پھول سننے کا مجھ ناچیز کو بھی اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اور اس اعزاز نے کئی سوال ناتجربہ کار ذہن کے دریچوں پہ آبلے جیسے اٹھا دیے ہیں۔

اللہ ہم گلوبل تہذیب کے دور میں تیزی سے داخل ہو گئے ہیں۔ فیمینزم کی اندھی آگ نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہم نے بیٹی کو نظریہ ضرورت کے تحت ماڈرن بنا دیا ہے۔ کیونکہ لڑکا کیسا بھی ہو۔ اس کے گھر والوں کو پڑھی لکھی، سلجھی، حسین، گوری، برسرروزگار اور اگر سرکاری جاب ہے۔ کوئی ڈاکٹر یا پروفیسر ہی ہو، وہ چاہئے۔ بہت ہی اچھے۔ صبح بھی پیسے، شام کو بھی ڈالر۔

اب اس سب کے ساتھ روٹی نا پکانے پہ طلاق ہو جانا۔ آپ نے ڈانٹا خوب ڈانٹا۔

تو اے ڈپٹی نذیر کی حجن بی،

اے جھلنگا چھپرکھٹ کی روح پارینہ،

اے خاتون معظم و مظلوم کہ ترے پاس تو اپنا نام تک نہیں بچا، مسز خان  کہلاتی ہے۔

قضا و قدر کے کان بہرے، زوجہ خان سے بیوہ خان تک۔۔۔ کیا زندگی پائی، سبزہ نورستہ ترے گھر کی نگہبانی کرے

آپ کا جو حسین لب و لہجہ تھا۔ اللہ بھلا کرے یہ محمود غزنوی لہجہ آج کل کی ماں اور ساس دونوں کا ہے۔ اس لہجے کے ساتھ آپ سر زمین اذدواج پر تلوار کے ساتھ تو کلمہ نکاح کی مدد سے فتح حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں مگر زبان کے ساتھ یہ ممکن نہیں۔ آپ کی زبان تو شاید پہلے حملے ہی میں پانی مانگ جائے۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ دلوں کی زمین مہذب زبان و دھیمے لہجے سے فتح ہوتی ہے۔ غصہ دین فطرت میں حرام ہے۔ اور حرام دین فطرت میں منع ہے۔ لہذا آپ کا ثواب چار گنا ہو گیا ہے۔

آتے ہیں روٹی اور زبان پہ۔ تو جو زبان آپ اس بڑھوتری کی عمر میں کنٹرول نہیں کر سکتیں، وہ یہ نئی نسل کیسے کنٹرول کر لے۔ یہ زبان تو آپ کی وراثت ہے۔ سربازار آ گئی یا ٹیلی ویژن کی اسکریں پر چلی آئی تو گویا مستند تہذیب کا حصہ ٹھہری۔ اچھا اب بات کرتے ہیں جواز کی۔ ایسا کیوں ہے؟

تو ایسا اس لئے ہوا کہ ایک تھکی ہوئی عورت نے ایک تھکی ہوئی نسل کو پروان چڑھایا ہے۔ جس کی سوچ بیٹی کی تعلیم کے لئے اس لئے بدلی کہ اب جاہل لڑکا بھی پڑھی لکھی ماڈرن لڑکی کی تمنا کرتا ہے۔ اور اس کے گھر والے بھی یہی خواہش رکھتے ہیں۔ اچھی خواہش ہے۔ کیونکہ ان کو یہ تو سمجھ آ گیا ہے کہ سلجھی ہوئی ماں، سلجھی ہوئی اولاد دے گی۔ ماڈرن ہے تو اگلی نسل میں سٹائل بھی آئے گا اور حس بصارت کی تسکین اپنی جگہ۔ کیونکہ پھر وہ گھر کو بھی اچھا ٹچ دے گی۔

اچھا اس کے ساتھ ایک اضافی تمنا یہ ہے کہ جاب بھی کرتی ہو۔ اب دور وہ نہیں رہا کہ ایک بندہ کمائے اور سارا گھر کھائے۔ اب سب کمائیں اور سب کھائیں کا زمانہ ہے۔ ہم نے اس بین الاقوامی تہذیب کو بھی قبول کر لیا۔

اب اسکے ساتھ ایک اور مزے کی بات ہے۔ عورت بچاری ابھی تک صنف نازک ہے۔ جب کہ ہم نے اس کے اندر کی نزاکت چھیننے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔

اے آتش بجاں مسز خان

آپ کو یاد ہو گا آپ کی دادی نانی کے دور میں کہا جاتا تھا بیٹی کو کام سارے آنے چاہیں۔ نصیب کا علم نہیں ہوتا۔ مگر کام کروانے نہیں چاہیں۔ نصیب میں پتا نہیں کیا لکھا ہے۔ گویا اس کی توانائی کو اس کی شادی کے لئے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اور ماں باپ کے گھر کی نیندیں میکے کی حسین یادیں تھیں۔ پھر آپ کو شاید وہ دور بھی یاد ہو جب بچی کو چھ ماہ قبل مایو ں بٹھایا جاتا تھا۔ مایوں بیٹھانے کا مقصد یہی تھا نا کہ اس کے سب کام کاج چھڑوا دیے جائیں، آرام اور سج دھج، ڈھولکی،  سہیلیاں، بہنیں سب اس کو چھیڑ چھاڑ کرتی تھی۔ خوش رکھنے کے لئے۔ پھر یہ مایوں کی رسم دو ماہ سے ایک ماہ تک آئی۔

اچھا اس کے بعد سسرال میں وہ تب تک کام کا آغاز نہیں کرتی تھی۔ جب تک اس کے ہاتھوں کی مہندی نا اتر جاتی۔ بلکہ یہ محاورہ بن گیا ”ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری،،

اب ؟ اب کیا ہے۔ ما ں کو بھی اس کے کیرئیر کی فکر ہے۔ وہ صبح سے شام بلکہ رات تک اسی تگ و دو میں ہے۔ خود آج کل کی ماں تھکی ہوئی نسل کی ماں ہے۔ کیونکہ پچھلی نسل کی ماں کا سب سے اہم مسئلہ سسرال سے الگ رہنا بن گیا تھا۔ اب اس نے گھر بھی دیکھنا ہے، بچے شوہر اندر باہر۔ پہلے کیا تھا جوائنٹ سسٹم میں دادی نانی بچوں کو پالا کرتیں تھیں۔ وہ عمر کا جذباتی حصہ گزار چکی ہوتی تھیں۔ ان کا ٹھہراﺅ بچوں میں منتقل ہو جاتا تھا۔ وہ ماں کو بھی اتنا تنگ نہیں کرتے تھے۔ اب ماں باپ بھرپور جوانی کی ساری توانائیاں براہ راست ان میں پالتے پالتے لاشعوری طور منتقل کر دیتے ہیں۔ اب بچہ بے جین اس لئے ہے ماں کی ذمہ داریاں اس کی ہمت سے زیادہ ہیں۔ پھر چونکہ کام والی ماسی کے علاوہ کوئی ساتھی نہیں بچا تو عورت جلد گھر کے کاموں میں بچوں کو ساتھی بنا لیتی ہے۔ وہ اپنی عمر سے پہلے تھک جاتے ہیں۔ اس میں بھی ماﺅں کے قابو بیٹیاں آتی ہیں۔ بیٹے تو کیسے بھی ہوں۔ ان کو دیکھ کر والدین کے دل سے ایک ہی بات نکلتی ہے”اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے” اب ہوتا یہ ہے کہ جوان ہو کر چاہے وہ ماں باپ نوں ہٹاں تے ویچ دین،،

گویا ایک تھکی ہوئی نسل نے ایک مضطرب نسل کو پروان چڑھایا ہے۔ ادھر کیرئیر شروع ہو تا ہے ادھر لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ابھی مہندی بھی نہیں اترتی اور جاب کی چھٹیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ ساس کا ضبط بھی۔ اور نوبت زبان درازی سے علیحدگی تک آ جاتی ہے۔

گویا ساری غلطی اس ایک لڑکی کی ہے۔ گالی آپ بہو کو دے رہی ہیں۔

کیا ایک ماڈرن بیٹی بنانے والی ماں اور ماڈرن بہو چاہنے والی ماں کو نہیں پتا کہ اس کے شریک حیات کو بھی ماڈرن ہونا چاہیے۔ رویے میں بھی، مزاج میں بھی،دماغ میں بھی، کردار اور لب و لہجے میں بھی۔ وہ ابھی تک ”نوری نت” اور ”گامو” ہے۔

تو میری جان من مسز خان

آپ مرد کو بھی تو ایجوکیٹ کیجئے، بیٹا پڑھی لکھی، سلجھی، گوری، کماؤ اور بے زبان بہو چاہیے تو خود کو بھی کچھ بدلو۔ تم بھی انسان ہو۔ اس کو تمہارے پیروں سے، جسم سے بو آتی ہے۔ نہا لیا کرو۔ جوانی میں پڑھ لیا کرو۔ اسے بھی اچھا لگتا ہے، اس کا شوہر اس کی طرح بات کر سکے، اس کا دماغ بھی ہے، اس کو بھی ذہنی کیتھارسس چاہئے۔ بیٹا گوری بہو مانگتا ہے، بہو کا بھی دل کرتا ہے کہ تمہارے بازو، گردن، چہرے، پیروں کا رنگ ایک جیسا ہے۔ گہرا نا ہو۔ اس کا بھی تو دل کرتا ہے تم کبھی اسکو پیار سے چائے بنا دو۔ کبھی اس کی دل جوئی کر لو۔ اس سے پیار سے گھر والوں کے سامنے بات کر لو۔ بیڈ روم میں اپنے مقصد عظیم کے سوا بھی اس کی کوئی زندگی ہے۔ وہ تھک بھی سکتی ہے۔ بیمار بھی ہو سکتی ہے۔ انسان ہے۔ بیوی ہی نہیں ہے۔

مسز خان!

بیٹی کو ہی نہیں بدلنا۔ بیٹے کو بھی ڈھالنا ہے۔ گھرکی بیٹی ہی کو نہیں، کبھی بیٹے کی تادیب بھی کی ہوتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا۔

اور اگر موبائل پہ کینڈی کرش اور لڈو کھیل کے ساس کے پٹھوں میں درد ہو سکتا ہے تو بہو کے کندھے بھی اعضائے انسانی ہی ہیں۔ اس نے بھی تو پھر ان حالات کی رپورٹ ٹائپ کر کے کہیں سے بہووانہ مشورے لینے ہیں۔

آپ کی بات شاید ٹھیک ہو۔ مگر کبھی کوئی طلاق کے وقت اپنے بیٹے کی برائی نہیں کرتا۔ بدلتی تہذیب میں تبدیلی کے حل پرانے طریقوں سے نکالنا بذات خود حماقت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

جس طرح کا آپ کا جلال ہے۔ یہ بغاوت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ محبت کی نہیں۔ اگرچہ آپ ہی نہیں، پوری سوسائٹی اسی رستے پہ گامزن ہے لیکن آپ اپنی عمر اور اضمحلال قواء کا خیال رکھیے۔

آپ سے عاجزانہ کلام کر نے والی ایک گستاخ بیٹی

رابعہ الرَبّاء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).