میں پیشہ ور صحافی ہوں


مجھ سے پوچھا کہ ”کیا کام کرتے ہو؟“ میں نے کہا ”صحافی ہوں۔“ اُس نے سر جھٹکا اور کہا ”اچھا، پیشہ ور ہو!“

میرے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گئے، میں اپنی خجالت کو محسوس کرسکتا تھا۔ شاید اس نے بھی جان لیا، کہنے لگا کہ ”میرا مطلب ’پروفیشنل جرنلسٹ ہو۔‘“ میں نے ٹھنڈی سی سانس بھر کر کہا کہ ”صحافت میرا شوق ہے لیکن میرا روزگار نہیں ہے۔ تاہم میں ہر شعبے میں پروفیشنلزم پر یقین رکھتا ہوں اس لئے پروفیشنل جرنلسٹ ہوں۔“

میرے لئے ایسا سوال پہلی مرتبہ آیا تھا۔ 32 برس صحافت سے جڑے ہوچکے ہیں لیکن کبھی اس قسم کے سوال سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ ملکی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کئی تلخ و شریں تجربات سے گزرا ہوں لیکن میرے لئے یہ سوال بڑا چبھتا ہوا لگا کہ کیا ’پیشہ ور صحافی‘ ہو۔ لفافہ، بوٹ پالش، تلوے چاٹنے والا سمیت کئی القاب سے سرفراز ہونا شاید میری طرح کسی بھی صحافی کے لئے نئی بات نہیں ہے، لیکن میرے لئے یہ اچنبھبے کی بات تھی کہ پرو فیشنلزم کو پیشہ ور سے تعبیر کیا جارہا تھا۔ کیا اس طرح ’پیشہ ور صحافی‘ کو کسی بھی منڈی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

اب میں مخاطب تھا کہ ”حضرت میرے دستیاب ریکارڈ کے مطابق میں اب تک کم و بیش دس ہزار سے کالم، فیچر، انوسٹی گیشن رپورٹس لکھ چکاہوں لیکن کبھی کسی نے مجھ سے ایسا تعارف، اس انداز میں نہیں چاہا۔“

موصوف نے میرے سوال کو ان سنا کردیا اور کہنے لگے کہ ”وزیر ستان پر کیوں نہیں لکھتے؟“

میں نے کہا، ”کئی بار لکھا ہے۔“ کہنے لگے، ”نہیں۔ سچ کیوں نہیں لکھتے۔“ میں نے کہا ”جتنا سچ مجھے ملا اتنا ہی لکھا۔“ کہنے لگے ”پورا سچ کیوں نہیں ڈھونڈتے؟“ میں نے کہا کہ ”طالبان دھمکی دیتے تھے۔“ کہنے لگے ”وردی والے یا بغیر وردی والے؟“ مجھے لگا کہ شاید میں غصے سے خاموش ہوگیا ہوں۔

کچھ دیر سستا کر میں نے پھر کہا کہ ”بات وردی یا بغیر وردی کی نہیں، اس معاشرے میں سب چہرے بے نقاب نہیں کیے جاسکتے، لچک رکھنا اور اساس کو زندہ رکھنے کے لئے قلم کی نوک کو ہر وقت تلوار بنانا مناسب نہیں۔“

اب اس کی مسکراہٹ مجھے زہریلی لگنے لگی تھی۔ کہنے لگے ”پی ٹی ایم کے مخالف ہو؟“ میں نے کہا کہ ”ہاں۔ میں بہت مخالف ہوں کیونکہ اس سے میری قوم کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔“

کہنے لگے ”تو پھر سچ لکھو نا۔“ میں نے کہا ”سچ ہی لکھتا ہوں کیونکہ، قوم کے نام پر ہزاروں بے گناہ جنت جا بھیجے جا چکے ہیں۔“ ( نہ جانے کیوں پہلی بار مجھے اپنے الفاظ کھوکھلے لگے )۔

پھر کہا ”ملا کے خلاف لکھو۔“ میں نے کہا کہ ”علما سو کے خلاف علما حق ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ میں اتنا فاضل اور عالم نہیں کہ کسی بھی مذہبی شخصیت کو نشانہ بناؤں۔ “

پھر کہا کہ ”اچھا تم ملا کے خلاف بھی لکھنے سے ڈرتے ہو کہ کفر کا فتویٰ لگ جائے گا۔ جنت کا ویزہ نہیں ملے گا۔“

میں نے کہا کہ ”ڈرنے کی بات تو نہیں لیکن قوم، ملا کی بات سنتی زیادہ ہے، میرا گھر ایک مرتبہ جلایا جا چکا ہے، اب ان حالات میں گھر دوبارہ جلوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ گولیاں کھا چکا ہوں، گلا کٹوا چکا ہوں۔ ہر بار قبر سے اٹھ کر زندہ آنے کی کوئی انشورنس نہیں لے رکھی۔“

”اچھا تو سیاست دانوں کے خلاف لکھو۔“ میں چڑ چکا تھا، جھلاہٹ سے کہا کہ ”اُن کے خلاف اس وقت لکھتا ہوں جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں، کیونکہ کوئی میڈیا مالک کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے ادارے کو حکومت کی جانب سے مشکلات ہوں۔“

مجھ سے کہنے لگے ”تو پھر لکھتے کیا ہو؟“ میں نے کہا کہ ”جو پاکستان سے باہر ہوتا ہے وہ سب کچھ لکھتا ہوں۔“

کہنے لگے ”یعنی تم پاکستان سے جب باہر جاؤ گے تو پاکستان کے خلاف لکھو گے۔“

میں نے کہا کہ ”کبھی نہیں۔ کیونکہ میرے 32 خاندان پاکستان میں ہی ہیں۔“ ( اس وقت ایک انجانا ڈر سا محسوس ہوا۔ نہ جانے کیوں، ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا)۔

موصوف ہنس پڑے کہ ”واقعی میں تم پیشہ ور ہو، لیکن لفظوں کے لبادے میں پروفیشنل بن کر خود کو ہی دھوکہ دے رہے ہو۔“

میں نے اب سر جھکا لیا اور پھرچیخ اٹھا کہ ”میں کوئی پیشہ ور فاحشہ نہیں، پروفیشنل جرنلسٹ ہوں۔“ پھر یہ آواز اندھے کنویں میں گم ہوتی چلی گئی اور قہقے سن کر میں جھلا اٹھا اور اپنے سامنے رکھے شیشے کوتوڑ دیا!
شیشے کے بکھرے ہر ٹکڑے میں میرے وجود کا ہر حصہ مسکرا کرمجھے پیشہ ور صحافی ہی کہہ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).