اکبر بگٹی تجھ سے ہم شرمندہ ہیں


1922 میں بگٹی قبیلہ کے سردار محراب خان کے انگریزوں کے ساتھ تعاون کی وجہ سے اس قبیلے کو انگریزوں نے 500 ایکڑ زمین عطا کی، لیکن سردار محراب کا بیٹا عبد الرحمان خان بگٹی انگریزوں کا سخت مخالف اور آزادی کا متوالا تھا۔ انہوں نے آزادی کی خاطر قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ نواب محراب خان کے دوسرے بیٹے اکبر بگٹی 1939 میں بگٹی قبیلہ کے جانشین بنے۔ اکبر بگٹی نے بھی آزادی کے حق میں ووٹ دیا اور 1951 میں ایجنٹ ٹو گو رنر جنرل بلوچستان کے مشیر رہے۔

ایوب خان دور میں اُن کے بھائی احمد نواز بگٹی کے سسر حاجی ہیبت خان کو قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ایوب خان کے دور میں ہی مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان نے بلوچ سرداروں کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لیے جو ظلم و ستم روا رکھے ان میں اکبر بگٹی کو بھی گرفتار کیا گیا۔

1971 میں اکبر بگٹی نے عوامی نیشنل پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا لیکن باقاعدہ پارٹی میں شمولیت اختیار نہ کی۔ 1974 میں جب پی پی اور نیشنل عوامی پارٹی میں اختلافات عروج پر پہنچے تو صوبہ بلوچستان کی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور وہاں گورنر راج لگا دیا گیا۔ بھٹو حکومت نے نواب اکبر بگٹی کو گورنر بلوچستان لگا دیا۔ بعد ازاں جب اس بلوچ سردار کا واسطہ بھٹو کی شاطرانہ چالوں سے پڑا تو اپنی اصول پسندی کو بچاتے ہوئے انھوں نے گورنری سے استعفٰی دے دیا۔

اکبر بگٹی ایک وضعدار سیاست دان تھے۔ ان کی وضعداری کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو حبیب جالب کے دیرینہ دوست مجاہد بریلوی صاحب نے اپنی کتاب ”جالب جالب“ میں لکھ رکھا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جب بلوچستان اسمبلی تحلیل کر دی گئی تو کوئٹہ میں نیشنل عوامی پارٹی نے ایک احتجاجی جلسہ رکھا۔ اس جلسے میں حبیب جالب بھی شریک ہوئے جو کہ نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن تھے۔ جالب نے اس جلسے میں گور نر اکبر بگٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی ایک تازہ نظم پڑھی، جس میں وہ کہہ رہے تھے :

سن بھئی اکبر بگٹی
جمہوری تحریک ہے یہ
اب روکے سے نہیں رکتی

سن بھئی اکبر بگٹی
ہم کو نہیں منظور کہ اپنے دیس کی ہو بربادی
اپنی گردن کسی بھی آمر کے آگے نہیں جھکتی

نواب صاحب نے وائر لیس پر نظم سنی تو اپنے عزیز سیف الرحمن مزاری کو جالب کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ”آج شام آپ میرے (اکبر بگٹی) مہمان ہوں گے۔“ حبیب جالب نے آنے سے انکار کر دیا اور مزاری صاحب کو پیغام دیا کہ ”نواب صاحب سے کہنا اب ان سے ملاقات پہاڑوں پر ہو گی۔“ اکبر بگٹی نے جالب کا جواب سن کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ”اب تو لاہور جا کر جالب کے گھر ان سے ملوں گا، وہ ایک غیرت مند، بہادر آدمی ہے۔“

بلوچستان حکومت کے ایک اہلکار کو جالب کا جواب سن کر بڑا غصہ آیا اور وہ جالب صاحب کو ان کے ہوٹل سے زبر دستی اٹھا کر گورنر ہاؤس لے گیا۔ نواب صاحب کو معلوم ہوا تو انھوں نے حکم دیا، ”جالب کو عبد الکریم (نیشنل عوامی پارٹی کا رکن) کے گھر چھوڑ آؤ،“ اور پھر عبد الکریم کے گھر جا کر نواب صاحب نے حبیب جالب سے ملاقات کی۔ ایسا ایک وضعدار سیاستدان ہی کر سکتا تھا۔

نواب اکبر بگٹی کھانے میں سبز مرچ کے شوقین تھے۔ چودھری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ ”اکبر بگٹی کو دوپہر کے کھانے میں، میں نے اکثر دیکھا کہ دس بارہ بڑے سائز کی نہایت کڑوی ہری مرچیں کچی چبا جاتے تھے۔“ نواب صاحب ایک اچھے میزبان تھے، ”ایک دن جیو کے ساتھ“ والے سہیل وڑائچ بھی ان کی مہمان نوازی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ اکبر بگٹی کی شخصیت میں وجاہت ایسی تھی کہ مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک تقریر میں کہا تھا، ”میں بڑے بڑے باد شاہوں سے ملا ہوں، مگراکبر بگٹی جیسی پُر ہیبت اور رعب دار شخصیت نہیں دیکھی۔“

1919 میں جلیانوالہ باغ میں اندھا دھند فائرنگ کر وانے والے جنرل ڈائر نے پہلی جنگِ عظیم کے تناظر میں بلوچستان کی شمال مغربی سرحد پر بلوچ قبائل کے خلاف 1916 میں ایک آپریشن کیا تھا۔ جنرل ڈائر کا یہ آپریشن بڑی کامیابی تو حاصل نہ کر سکا مگر اس کا ذکر انھوں نے اپنی 1921 میں شائع ہونے والی کتاب ”ریڈرز آف سرحد“ میں تفصیل سے کیا، اس کتاب کا اردو ترجمہ معروف شاعر میر گل خان نصیر نے کر رکھا ہے۔ برسوں بعد جنرل ڈائر کی سوچ والا ایک جنرل پاکستان کو بھی عطا ہوا۔

چو دھری شجاعت حسین اپنی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ میں لکھتے ہیں؛ ”جن دنوں نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے ایک بار ہم ان کے گھر گئے۔ میرے ساتھ مشاہد حسین سید، مونس الہی اور خاتون صحافی نسیم زہرہ بھی تھے۔ ہم نے ان کے گھر میں ایک بڑا سا گڑھا دیکھاجس کے بارے میں نواب صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فوجی بمباری کی وجہ سے بنا ہے جس میں ان کی پوتی بھی زخمی ہوئی گئی تھی۔“

چو دھری شجاعت حسین مزید لکھتے ہیں کہ، ”میں نے جنرل مشرف اور اکبر بگٹی کے درمیان براہِ راست ایک ملاقات کا بندو بست کیا تھا تاکہ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہو سکیں۔ لیکن یہ میٹنگ طے شدہ وقت سے کچھ دیر پہلے اچانک منسوخ ہو گئی۔ نواب اکبر بگٹی نے مجھے بتایا کہ صدر مشرف کے آفس سے فون آیا کہ ان کو (پر ویز مشرف) لانے والا جہاز ڈیرہ بگٹی پہنچنے کے بعد خراب ہو گیا ہے، لہذا میٹنگ منسوخ کی جارہی ہے۔ نواب صاحب کا کہنا تھا اس فون کے آدھ گھنٹہ بعد صدر مشرف کا جہاز انھوں نے خود اڑتے دیکھا، یہ جہاز ڈیرہ بگٹی ایئر بیس سے واپس جا رہا تھا۔“ چو دھری صاحب لکھتے ہیں ”جب بھی اکبر بگٹی کا کسی میٹنگ میں نام آتا تو ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جینس جنرل ندیم اعجاز کا لہجہ بہت سخت ہو جاتا تھا۔“

اکبر بگٹی کے قتل کے حوالے سے کنور انتظار محمد خان نے اپنی کتاب ”سازشوں اور غداری کی داستان“ میں لکھا ہے: ”کسی فوجی افسر نے سوئی گیس فیلڈ میں خدمات سر انجام دینے والی ایک ڈاکٹر صاحبہ سے زیادتی کی۔ نواب اکبر بگٹی نے اس پر شدید احتجاج کیا، وہ فوجی افسر کو سزا دلانا چاہتے تھے۔ مشرف نے اس واقعے کو معمول کا واقعہ سمجھ کر اکبر بگٹی پر شدید تنقید کی، حالات بگڑ گئے، بلوچوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور ایک غار میں چلے گئے۔ مذ اکرات کی بجائے جنرل مشرف دھمکیاں دیتا رہا کہ ایسی جگہ سے فائر ہو گا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو گی۔ ان کی دھمکی نے 26 اگست 2006 کو حقیقت کا روپ دھار لیا اور غار کو بمباری کر کے تباہ کر دیا گیا۔ نواب صاحب اپنے ساتھیوں سمیت اگلے جہاں سدھار گئے۔

نواب صاحب کی وفات سے اگلے روز معروف سیاستدان جاوید ہاشمی نے جیل سے اپنی بیٹی کو خط لکھا، ’ایک اسی سالہ بوڑھے کو گرفتار کرنا اتنا مشکل کام نہ تھا، مگر حکمران تو اسے ڈاکٹر شازیہ کی عصمت دری کرنے والے [افسر] پر تنقید کا مزہ چکھانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ملک بے شک ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے، قوم کی بیٹیوں کی عصمتیں لوٹی جائیں مگر وردی اور اس کی عصمت کا تحفظ تو ہو گیا۔‘“

چودھری شجاعت لکھتے ہیں ”اکبر بگٹی کے قتل سے اگلے روز میٹنگ میں جنرل ندیم اعجاز نے تمام شرکاء کے سامنے صدر مشرف کو بتایا کہ کوئٹہ میں لوگ اکبر بگٹی کے قتل پر بہت خوش ہیں اور مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ نواب اکبر کے جنازے پر بھی لوگ نہیں آئیں گے۔“ جبکہ اسی روز جاوید ہاشمی نے اپنے خط میں لکھا: ”کاش آج اکبر بگٹی کی جگہ مجھے تابوت میں بند کر کے اس پر تالے لگا کر دفن کیا جا رہا ہوتاتو پاکستان کو اتنا نقصان نہ پہنچتا۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کے دشمن بھی پاکستان کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے، جتنا نادان دوستوں نے پہنچایا۔ اکبر بگٹی کو جس طرح مارا گیا کسی تہذیب یافتہ معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔“ تفصیلی خط جاوید ہاشمی کی کتاب ”تختہ دار کے سائے تلے“ میں ”الوداع۔ اکبر بگٹی“ کے نام سے موجود ہے۔

تاریخ نے ثابت کیا کہ جنرل ندیم اعجاز غلط تھے اور زیرک سیاستدان جاوید ہاشمی نے ٹھیک کہا تھا، بہت نقصان پہنچا ان کے قتل ہونے اور قاتل نہ پکڑے جانے سے۔ سعید پرویز کا شعر ہے :

تیرا خون بہانے والے زندہ ہیں
اکبر بگٹی تجھ سے ہم شرمندہ ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).