پاکستان ایران ترکی اتحاد وقت کی ضرورت


پاکستان اور ایران کے تعلقات کی تاریخ پاکستان بننے کے فورًا بعد سے شروع ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور پاکستان کے لئے بیرونی دنیا اور خارجہ پالیسی کا دروازہ کھلا۔ شاہ ایران، رضا شاہ پہلوی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے غیر ملکی سربراہ مملکت تھے جنہوں نے انیس سو پچاس میں پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ ان تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ بھی آیا اورکچھ گرمی سردی بھی ہوتی رہی لیکن قریبی ہمسایہ اور اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے باہمی تعلقات ہمیشہ برقرار ہی رہے۔

تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ فرقہ واریت رہی جس میں پاکستان کی شیعہ برادری کی طرف سے پاکستان کے اسلامائزیشن پروگرام کے تحت ان پر حکومتی دباؤ اور ناروا سلوک تھا پھر بھی ایک اندازے کے مطابق ایران وہ واحد ملک ہے جس کے بارے میں پاکستانی عوام کی اکثریت مثبت جذبات رکھتی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی فرقہ وارانہ اور علاقائی برتری کی جنگ میں پاکستان ہمیشہ سے میدانِ جنگ بنا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں اتر چڑھاؤ کے باوجود اقتصادی اور تجارتی تعلقات باہمی طور پر کسی نہ کسی صورت اگے بڑھتے رہے حتیٰ کہ انیس سو ننانوے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک فری ٹریڈ ایگریمنٹ بھی طے پایا اس کے علاوہ دونوں ممالک ای سی او یعنی اکنامک کواپریشن آرگنائزیشن یا تنظیم برائے اقتصادی تعاون کے بانی ممالک ہیں۔

بلا شبہ ایران ایک ایسا برادر اسلامی ملک ہے جو ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا اور ہر کٹھن وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا کیسے آئیں ذرا تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعد مسلم امہ کے ساتھ مجموعی اور ایران کے ساتھ ایک خصوصی مضبوط تعلق کی پالیسی کی طرف اشارہ دیا اور رہنمائی کی۔ شیعہ سنی کی تفریق کی بجائے اسلامی تشخص ایران پاکستان تعلقات کی بنیاد بنا اور خصوصاً انقلابِ ایران کے بعد مسلک کی بجائے اسی اسلامی تشخص کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنے پر زیادہ زور دیا گیا۔ انیس سو پچاس میں لیاقت علی خان اور شاہ ِ ایران کے درمیان ایک دوستانہ تعلقات کے معاہدہ پر دستخط کیے گئے اس معاہدے کی نوعیت نہ صرف دوستانہ نوعیت کی تھی بلکہ اس کے جغرافیائی اور علاقائی سیاسی مقاصد بھی تھے چونکہ اس وقت ہندوستان نے مصر کے جمال عبدالناصر سے تعلقات استوار کر لئے تھے جو عرب ازم یا عرب نیشنلزم کے نظریات کو فروغ دے رہا تھا جس کی وجہ سے عرب ممالک کی موروثی بادشاہت خطرے میں تھی جن میں کچھ شاہِ ایران کے بھی اتحادی تھے۔

بین الاقوامی تعلقات کا ادیب ہرش وی پنت کہتا ہے بہت سی وجوہات کی بنا پر ایران پاکستان کے لئے ایک قدرتی اتحادی اور مثالی ملک تھا۔ اسی لئے دونوں ممالک نے باہمی تجارت کے لئے ایک دوسرے کو پسندیدہ ملک کا درجہ دیا ہوا تھا۔ شاہ ِ ایران نے ایرانی تیل اور گیس کمپنی سے استفادہ کرنے کے لئے پاکستان کو فراخدلانہ پیشکش کی ہوئی تھی اور دونوں ممالک کی آرمی پاکستانی اور ایرانی بلوچستان میں بغاوت کو ختم کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہی تھیں۔

شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت مضبوط تھے۔ پاکستان ایران اورترکی نے امریکی کے بنائے دفاعی معاہدے سینٹو پر روسی یلغار سے بچنے کے لئے اتحاد کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر مجتبیٰ رضوی کے مطابق اگر انیس سو پچپن میں ایران سینٹو معاہدے میں شمولیت اختیار نہ کرتا تو پاکستان بھی اس معاہدے میں شامل نہ ہوتا۔

ایران نے انیس سو پیسنٹھ کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا پاکستان کو پیرامیڈیکل سٹاف ادویات اور مفت پٹرول مہیا کیا۔ ایران نے جنگ کے دوران ہندوستان کو تیل کی سپلائی بند کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ ہندوستانی حکومت آج بھی یہ سمجھتی ہے کے انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ امریکی امداد کی معطلی پر یہ رپورٹ بھی جاری کی گئی کے ایران مغربی جرمنی سے نوے جیٹ لڑاکا طیارے خرید کر پاکستان کو دے چکا ہے۔

انیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پھر اپنا کردار ادا کیا اور اس بار پاکستان کو نہ صرف دفاعی آلات کی فراہمی بلکہ بھرپور سفارتی امداد بھی کی گئی۔ فارسی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں شاہِ ایران نے کھلے طور پر اعتراف کیا تھا کہ ہم سو فیصد پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انیس سو تہتر میں جب بلوچستان میں مسلح بغاوت پھوٹ پڑی تب ایران نے پاکستان کو اس بغاوت کو دبانے میں بڑے پیمانے پر تعاون کیا تاکہ یہ بغاوت بڑھتے بڑھتے ایرانی بلوچستان کو لپیٹ میں نہ لے سکے۔ تین سال کی مسلسل کوشش سے اس بغاوت کا خاتمہ ممکن ہوسکا تھا۔

انیس سو ساٹھ اور ستر کی دھائی میں جب پاکستان ایک ترقی پزیر ملک اور دفاعی لحاظ سے ایک چھوٹا ملک تھا ایران دنیا کی پانچویں بڑی فوجی طاقت، ایک مضبوط معیشت اور قطعی طورپر ایک غیر متنازعہ علاقائی سپر پاور تھا۔ اس کی اس طاقت کے پیچھے درحقیقت امریکی پشت پناہی اور آشیرباد تھی جس کی وجہ سے ایران عربوں کی نظر میں کھٹک رہا تھا یہ کشمکش اس وقت اور زیادہ بڑھ گئی جب انیس سو چوہتر میں رضا شاہ پہلوی نے لاہور میں منعقد اسلامی کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا کیونکہ اس میں لیبیا کے معمعر قزافی کو بھی مدعو کیا گیا تھا اور ان دونوں کی چپقلش مشہور ِ زمانہ تھی۔ بہرحال پھر انیس سو چھہتر میں ایران نے پاکستان ا ور افغانستان کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).