عزت والے پُروقار خارجہ تعلقات


وقار، عزت نفس اور پسندیدگی کا عام انسانوں کی طرح اقوام کے رویوں پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ خواہش توہین کے خوف کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ وقار ایسا سرمایہ ہے جو اقوام اپنی سیاسی بصیرت، مضبوط معیشت اور جغرافیائی اہمیت کے ذریعے کماتی ہیں۔ دوستوں اور دشمنوں کا تعین بھی اسی اہمیت کے مطابق ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت پر اسلامی دنیا اور مسلم امہ کی خاموشی پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان کے خارجہ محاذ پر باہمی تعلقات میں کمیاں اور کوتاہیاں رہ گئی ہیں۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اسی دن سے قوم کو امہ اور اسلامی بھائی چارے کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔

بہت سے پاکستانی تو اس بات پر حیران ہیں کہ آخر کیوں مسلم امہ پاکستان سے اسی وقت اظہار یکجہتی کرتی ہے جب ہم اندرونی طور پر متحد اور اقتصادی طور پر مضبوط پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ اقوام کے مابین باہمی تعلقات میں مذہب اور نظریات کبھی بھی مضبوط خارجہ تعلقات کی بنیاد نہیں ہوتے۔ حقیقت میں قومیں اور ممالک کے تعلقات میں ان کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور مجموعی طور پر معاشی مفادات اور سٹریٹجک اہمیت اقوام کو باہم جوڑے رکھتی ہے۔ جب پاکستان کے نام نہاد دوست مشکل کی گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے تو ہم پاکستانیوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور پاکستانی اس قسم کے طرز عمل کو اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔

آج کے جدید دور میں جہاں مقامی سیاست میں مقبولیت اور شناخت کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے وہاں یہ عوامل بین الاقوامی سیاست میں بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ معروف امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ فرانسس فوکویاما نے اپنی نئی تصنیف Identity: the Demand for Dignity and Political Resentment میں سیاسی شناخت کے تصور پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اپنے تھیسس کو انسانی روح کے تین پہلوئوں کی وضاحت کر کے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ پہلی ضروریات کو جبلت کے زمرے میں رکھا گیا ہے جیسے بھوک پیاس وغیرہ ۔دوسرے نمبر پر منطق اور استدلال آتا ہے مثال کے طور پر ہم بھوکے ہوں تب بھی گلے سڑے گوشت کو نہیں کھاتے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر ہارمونز سے پیدا ہونے والا احساس ہے۔

جو دوسرے لوگوں میں وقار ‘ احترام‘ قبولیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ شناخت کی سیاست کی خواہش بھی ہمارے ہارمونز سے جنم لیتی ہے۔ کیونکہ ہر گروہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو دوسرے گروہوں سے ممتاز حیثیت حاصل ہو ۔لوگ اپنی شناخت کو تسلیم کروانے کے لئے لڑتے ہیں۔ کیا پاکستان کو بھی اسی قسم کی تحلیل نفسی کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کو ازسر نو اس معیار پر پرکھا جائے؟شاید یہی وقت ہے کہ ہم پاکستانیوں کو اسلامی دنیا اور امہ کے فریب سے باہر نکل کر حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ آج کی دنیا میں یہ تصور اقوام کی عظمت کا معیار ہی نہیں رہا۔

اس حقیقت کا سامنا ہم حالیہ دنوں میں کشمیر کی صورت حال پر خلیجی ممالک کی خاموشی کی صورت میں کر چکے ہیں۔ ان ممالک کی بھارت سے 100ارب ڈالر کی تجارت ہے جو بھارت کو خلیج کے ممالک کا معاشی پارٹنر بنائے ہوئے ہے۔ جبکہ پاکستان اپنے عرب اتحادیوں کے مابین تجارتی توازن کھو چکا ہے اور پاکستان کے تعلقات خلیجی ممالک کے ساتھ صرف بیل آئوٹ پیکیج تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کے خلیجی ریاستوں سے پروقار تعلقات اس وقت تک خواب ہی رہیں گے جب تک پاکستان اپنی معیشت اور عزت نفس بحال نہیں کر لیتا۔ پاکستان کے عرب دنیا اور ایران سے تعلقات کبھی بھی اتنے آسان نہیں رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے پر اثر انداز ہونے کے لئے ایران اور عرب دنیا نے پاکستان میں اپنی پراکسیز بنا رکھی ہیں جو تشدد پسند قوتوں سے مراسم بنائے ہوئے ہیں اور پرتشدد کارروائیاں بھی کرتی ہیں۔

پاکستان کے عرب دنیا پر انحصار کے دور کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے خارجہ پالیسی میں کلیدی تبدیلی کر کے کیا تھا۔ بھٹو کے اس اقدام کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور سینٹو کے بجائے عرب دنیا کو بنا لیا گیا۔ اس وقت بھی شہنشاہ ایران نے بھٹو کو متنبہ کیا تھا کہ یہ تعلقات پاکستان کے لئے کبھی بھی سٹریٹجک لحاظ سے سود مند ثابت نہیں ہوں گے۔ شاہ ایران نے عالمی اسلامی کانفرنس جو 1974ء لاہور میں ہوئی تھی اس کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ اس کے باوجود بھی ایران نے دولخت ہونے کے بعد پاکستان کے پائوں پر کھڑے ہونے میں بھر پور مدد کی تھی۔ اس وقت بھٹو نے بھی عرب دنیا کی بھر پور مدد حاصل کی تھی۔

ایرانی امور کے ماہر ایلیکس وٹانکا نے اپنی کتاب میں ایران پاکستان سکیورٹی اور سفارتکاری پر امریکی اثرورسوخ پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور لکھتے ہیں کہ کس طرح اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری بڑھتی گئی۔ در حقیقت شاہ ایران نے تمام تر اختلافات کے باوجود لاہور میں اپنا وزیر خارجہ بھیجا تھا۔ اس کانفرنس کے ثمرات بھی پاکستان نے عرب امداد کی صورت میں سمیٹے جو پہلے نہ ہونے کے برابر تھی۔ البتہ ایران میں تختہ الٹنے اور پاکستان میں فوجی مارشل لاء کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ شاہ ایران کے بعد مغرب کا اپنے عرب دوستوں پر انحصار بڑھتا گیا اور انہوں نے خلیج میں امن اور افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے اپنے عرب دوستوں پر انحصار کیا ۔

پاکستان کو بھی خطہ کے جیوسٹریٹجک حالات کے پیش نظر اپنی پالیسی میں تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ اس طرح پاکستان کا عربوں اور ادھار تیل پر انحصار بڑھتا گیا ادھار تیل اور اربوں ڈالر کے بیل آئوٹ پیکجز نے باہمی احترام اور مساوات کے اصولوں پر تعلقات کو شدید متاثر کیا۔ آج پاکستان کو کشمیر کے معاملے میں تین اطراف سے حمایت مل رہی ہے جن میں پہلے نمبر پر مغربی میڈیااور انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں جو صورتحال کو اجاگر کر کے بھارت پر دبائو بڑھا رہی ہیں۔ دوسرے نمبر پر چین ہے جس کی مدد سے ہم کشمیر ایشو کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔

چین کے کشمیر میں اپنے مفادات ہیں، دوسرے سی پیک اور بی آر آئی کی صورت میں چین کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی متقاضی ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی چین اور امریکہ کے ستونوں کے سہارے پر ہی کھڑی رہی ہے۔ پاکستان نے چین اور امریکہ سے اپنے تعلقات میں بہترین توازن قائم کئے رکھا ہے۔ امریکہ کو افغان امن عمل میں پاکستان کی اشد ضرورت ہے تو پاکستان بھی معاشی بحران سے نکلنے اور مثبت تاثر کے لئے امریکہ کا محتاج ہے۔ عالمی منظر نامے میں عزت و وقار کی خارجہ تعلقات میں بہت اہمیت ہوتی ہے۔

ان حالات میں بظاہر پاکستان کے لئے ایران سے تعلقات اور سٹریٹجک اہمیت بنائے رکھنا یقینا مشکل ہے لیکن پاکستان ایران کے ساتھ معاشی شراکت داری قائم رکھ کر دونوں ممالک میں خلیج کو پاٹنے کی کوشش ضرور کر سکتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں توازن بنائے رکھنے میں چین کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ایران چین کے ساتھ بہترین شراکت داری کے ذریعے نہ صرف پاکستان اور ایران بلکہ پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کر سکتا ہے۔ تاہم عالمی کمیونٹی میں پروقار تعلقات کے لئے اندرونی طور پر مضبوطی اور دہشت گردی میں باہم تعاون اور افغان امن عمل میں کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو گی۔ دہشت گرد تنظیمیں ان اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن سکتی ہیں پاکستان کو ان قوتوں کو پھر سے سراٹھانے کی اجازت کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔

بشکریہ تجزیات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).