مسز خان ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں


پاکستان کے اندر اسلامی شادی میں خواتین اور ان کی اولاد کو مندرجہ ذیل طریقوں سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اگر ان باتوں ‌ کو پہلے سے سمجھ لیا جائے اور ان سے بچنے کے لیے پہلے سے قانونی معاہدہ لکھ کر کیا جائے تو یہ دستاویزات وقت پڑنے پر عدالت کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں۔

1۔ ایک آدمی ایک وقت میں ‌ چار خواتین سے شادی کرسکتا ہے۔
2۔ مہر کے علاوہ شادی شدہ زندگی میں ‌ شوہر کی ملکیت پر خاتون کا کوئی قانونی حق طے شدہ نہیں ہے۔
3۔ شوہر اپنی بیوی کو مار پیٹ سکتا ہے۔

4۔ طلاق ہونے کی صورت میں ‌ بچوں کی تحویل میں ‌ باپ کو فوقیت حاصل ہے۔ اگر کوئی خاتون دوسری شادی کرلیں تو ان کے بچے ان سے چھن سکتے ہیں۔

5۔ اگر شوہر طلاق دینا چاہے تو فوراً دے سکتا ہے۔ خواتین کے لیے یہ ایک طویل اور پیچیدہ نظام ہے۔
6۔ خواتین کو ان کے والدین کی طرف سے بھی وراثت میں ‌ کم حصہ ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی معاشی پوزیشن کمزور ہوتی ہے۔
7۔ اسلامی شادی دو برابر افراد کے درمیان نہیں ہے بلکہ اس میں ‌ ایک کو دوسرے پر فوقیت دی گئی ہے۔

جو بھی خواتین شادی کرنے والی ہوں ‌ ان کو سوچ سمجھ کر اپنی پسند ناپسند کے لحاظ سے یہ معاہدہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا ہو اور اس معاہدے میں ‌ دونوں ‌ پارٹیوں ‌ کے مطالبات شامل ہوں ‌ تو بہتر ہے۔ اکثر خواتین کہتی ہیں ‌ کہ ہمارے کوئی مطالبات نہیں ہیں۔ آپ کو اپنے مطالبات کے بارے میں ‌ سوچنے اور ان کو بغیر گناہگار سمجھے مانگنے کا حق حاصل ہے۔ جو بلاگ نظر سے گزرتے ہیں ان میں ‌ جن باتوں ‌ پر تضادات پیدا ہوتے نظر آتے ہیں تو یہی مناسب لگتا ہے کہ مندرجہ ذیل باتوں ‌ کو پہلے سے ہی طے کرلیا جائے اور پھر ان پر نیک نیتی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔

1۔ کون کام کرے گا اور کون گھر میں ‌ رہے گا؟ اگر بیوی گھر میں ‌ رہے اور شوہر باہر جاکر کام کرے تو بیوی کو ماہانہ کتنا خرچہ ادا کیا جائے گا؟
2۔ اگر دونوں ‌ ملازمت کریں ‌ گے تو کیا خاتون کی تنخواہ کو اپنے گھر کی ذمہ داریوں ‌ کو پورا کرنے کے بعد ان کے بہن بھائیوں ‌ اور ماں ‌ باپ کے بجائے ان کے شوہر کے گھر والوں ‌ پر خرچ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا؟

3۔ کیا خاتون کو اپنی پسند اور طریقے سے عبادت کرنے یا نہ کرنے کی اجازت ہوگی یا ان پر مذہب بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا؟
4۔ کیا خاتون کو اخبار پڑھنے، اپنی سیاسی سوچ بنانے اور اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کا قانونی حق استعمال کرنے پر ان کو دھمکی دی جاسکے گی؟
5۔ کتنی بار اور کس حالت میں حق زوجیت ادا کرنا لازمی ہوگا؟

6۔ کیا خاتون اپنے بچوں ‌ کو اپنی مرضی کا کھلا پلا اور پہنا سکتی ہیں؟ کیا وہ ان کو اپنی پسند کی تعلیم دے سکتی ہیں؟ یا اس کو شوہر اور ساس سسر پر حکومت سمجھا جائے گا؟
7۔ ایک دن میں ‌ کتنی روٹیاں ‌ پکانی ہوں ‌ گی؟ کس وقت سو جانے کی اجازت ہوگی اور کس وقت اٹھنا ہوگا؟
8۔ اگر شوہر کے رشتہ دار رات کے گیارہ بجے گھر پہنچیں ‌ تو کیا ان کو سلام کرنے کے لیے جاگنا اور ان کے لیے پراٹھے پکانا ازدواجی زندگی کی ڈیوٹی میں ‌ شامل ہوگا؟

9۔ ایک سال میں ‌ ازدواجی زندگی سے کتنے ہفتے کی چھٹی ملے گی؟
10۔ کیا خاتون کو تعلیم جاری رکھنے یا اپنے جسم اور صحت سے متعلق فیصلے کرنے کی آزادی ہوگی؟
11۔ اولاد پیدا کرنا خاص طور پر لڑکا پیدا کرنا شادی کی کامیابی کے لیے کتنا ضروری سمجھا جائے گا؟

اختلافات اپنی جگہ، لیکن فیمینزم مسز خان کو اس بات پر مبارک باد پیش کرتا ہے کہ وہ اس کے بل بوتے پر ملنے والی آزادی سے سماجی کارکن بننے کے لیے گھر سے نکلیں، ٹی وی پر آئیں اور اپنا آزایء رائے کا حق استعمال کیا۔ ان کے اپنے شوہر سے تعلقات ان کا نجی معاملہ ہیں۔

یہاں تک مضمون پڑھ کر کسی کا دل گھبرا گیا ہو تو دھیرج رکھئیے۔ دنیا میں ‌ اتنا بھی اندھیر نہیں۔ ابھی ایک نئے پاکستانی جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ ہم لوگ ریستوران میں ‌ کھانا کھا رہے تھے۔ میں ‌ نے باتوں باتوں ‌ میں ‌ اس کے شوہر سے پوچھا، کیا تمہیں ‌ کھانا پکانا آتا ہے؟ اس نے کہا جی نہیں لیکن میں ‌ اپنی بیگم کے لیے سبزی کاٹتا ہوں ‌ اور برتن دھوتا ہوں۔ یہ سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ نئی نسل وقت کے ساتھ بہتر ہورہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3