مسز خان ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں


میں ‌ مسز خان کو نہیں ‌ جانتی ہوں۔ یہ خبر میں ‌ نے ہم سب آن لائن میگزین پر پڑھی ہے۔
”کراچی کی معروف سماجی کارکن مسز خان نے ان خواتین کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جو گھریلو امور کی انجام دہی کو ایک طعنہ سمجھتی ہیں۔

نجی ٹی وی 92 نیوز کے مارننگ شو میں گفتگو کرتے ہوئے مسز خان نے کہا کہ ہمارے زمانے میں عورت کو شروع سے سمجھایا جاتا تھا کہ اپنی زبان زیادہ مت چلاؤ کیونکہ اگر عورت منہ زور ہو جاتی ہے تو معاملات بگڑتے ہیں۔ آج کی عورت ساس اور شوہر پر حکمرانی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

ہمیں بتایا جاتا تھا کہ شوہر آیا ہے تو اس کے جوتے طریقے سے رکھیں اور گرم روٹی بنا کر دیں۔ اب کہتی ہیں کہ میں روٹی نہیں بناؤں گی۔ اگر یہ نہیں کرنا چاہتیں تو شادی کیوں کی تھی۔ جب تک آپ یہ سب نہیں سیکھ نہیں جاتے تو آپ کو شادی نہیں کرنی چاہیے۔

مسز خان کا کہنا تھا شادی کا مطلب ذمہ داری ہے، ’اپنے ماں باپ کے گھر میں تو سارے کام ہوتے تھے، کیا آپ کی ماں ماسی تھی جس نے آپ کی پرورش کی اور آپ کو کھانا پکا کر دیا؟ آپ کیسے چوہدرانی بن کے بیٹھیں گی۔ ‘

انہوں نے نوجوان لڑکیوں کو نصیحت کی کہ ”شوہروں کے سامنے منہ بند کر کے رکھو، آج کی عورتیں بہت منہ چڑھا رہی ہیں، آج کل ٹی وی دیکھ دیکھ کر اونچا اونچا منہ کھولتی ہیں، آج کی عورت سختی برداشت نہیں کرتی، اگر سختی کی جاتی ہے تو وہ بھاگ جاتی ہے۔ “

شادی ایک معاشی، جذباتی، جنسی اور سماجی کانٹریکٹ ہے جو دو بالغ افراد عقل و حواس کے ساتھ بغیر کسی بیرونی دباؤ کے باہمی طور پر قبول کریں۔

مسز خان کے بیان کے مطابق شادی کا کانٹریکٹ مندرجہ ذیل مطالبات پر مبنی ہے۔
1۔ اپنی زبان زیادہ مت چلاؤ۔
2۔ ساس اور شوہر پر حکمرانی کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
3۔ شوہر آئے تو اس کے جوتے طریقے سے رکھیں اور گرم روٹی بنا کر دیں۔
4۔ سختی برداشت کریں۔

اگر کسی بھی 18 سال کی بالغ خاتون نے یہ مطالبات پڑھ کر اور سمجھ کر بغیر کسی بیرونی دباؤ کے اس پر اپنے دستخط کیے ہیں ‌ تو پھر اگر انہوں ‌ نے ان اوپر دی گئی تین باتوں پر عمل نہیں ‌ کیا تو نمبر 4 کی وہ خود ذمہ دار ہیں۔ سوائے شاید موت کے۔ اگر وہ نمبر چار کے دوران مر گئیں ‌ تو ہو سکتا ہے کہ کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ لیکن اس کے بارے میں ‌ کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا یا نہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ساری دنیا میں ‌ خواتین کی موت کا سب سے بڑا سبب گھریلو تشدد ہے۔ گھریلو تشدد کے 82 فیصد شکار خواتین ہیں۔

دیکھیے بالغ دنیا معاہدوں کی بنیاد پر ہی چل رہی ہے۔ اس لیے ان معاہدوں کو بہت سوچ سمجھ کر بنانا لازمی ہے۔ ہر انسان کو سب سے پہلے اپنے لیے سوچنا چاہیے اس کے بعد کسی اور کے لیے۔ خواتین کے لیے یہ کام ایک چیلنج ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں ‌ کو بھی اپنے وجود کا حصہ سمجھتی ہیں۔ حالانکہ وہ ہمارے وجود کا حصہ نہیں بلکہ الگ انسان ہیں۔

مثال کے طور پر میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ میں ‌ نے نارمن ہسپتال کے لیے کام کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا۔ اس میں ‌ صاف صاف کچھ باتیں ‌ لکھی ہوئی ہیں۔ جن میں ‌ سے سب سے ضروری مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ آپ کو سال میں ‌ اتنی تنخواہ ملے گی جو ہر دو ہفتے میں ‌ ادا کی جائے گی۔
2۔ آپ سال میں ‌ تین ہفتے چھٹیاں لے سکتی ہیں۔
3۔ آپ ایک سال میں ‌ ایک ہفتہ میڈیکل ایجوکیشن کے لیے خرچ کر سکتی ہیں۔

4۔ ہسپتال آپ کی مال پریکٹس انشورنس، میڈیکل لائسنس اور میڈیکل ایجوکیشن کا خرچہ پہلے سے طے کردہ حد تک ادا کرے گا۔
5۔ آپ کو ہر ہفتے میں اتنے گھنٹے کلینک کرنا ہوگا۔

6۔ آپ کو اپنے پارٹنرز کے ساتھ کال لینی ہو گی تاکہ ہر وقت کم از کم ایک اینڈوکرنالوجسٹ ایمرجنسی میں ‌ موجود ہو۔
7۔ ہسپتال آپ کو کسی بھی وجہ سے نوکری سے نکال سکتا ہے۔ اگر ہسپتال آپ کو نوکری سے نکال دینا چاہے یا آپ خود سے یہ نوکری چھوڑ دینا چاہیں تو نوے دن کا نوٹس ضروری ہے۔

2018 میں جب اکتوبر میں ‌ میں ‌ ڈاکٹر سہیل سے ملنے اور ان کی کانفرنس میں ذیابیطس کا لیکچر دینے کے لیے کینیڈا جانے والی تھی تو میری مینجر میرے آفس میں ‌ آ دھمکی اور بولی کہ آپ اس سال میں ‌ پہلے سے اپنی ساری چھٹیاں ‌ ختم کرچکی ہیں ‌ اور آپ کے کانٹریکٹ کے مطابق اس سے زیادہ چھٹیوں ‌ کی اجازت نہیں ‌ ہے۔ میں ‌ نے اس سے کہا کہ میں ‌ پہلے سے جہاز کا ٹکٹ خرید چکی ہوں اور پلان پکا ہے بے شک یہ دو دن میری تنخواہ میں ‌ سے کاٹ لیں۔ پھر میں ‌ چلی گئی۔

حالانکہ ہسپتال کو معلوم بھی ہے کہ میری زیادہ تر چھٹیاں ‌ میڈیکل کانفرنسوں یا ریسرچ سے متعلق ہی ہوتی ہیں جس سے مجھے بہتر ڈاکٹر بننے میں ‌ مدد ملے گی۔ اس کی وجہ سے مریضوں کا بھی بھلا ہوگا اور ہسپتال کے لیے بھی اچھا ہی ہے۔ لیکن ایڈمنسٹریشن یا ایک کیپٹالیسٹ نظام اس طرح نہیں سوچتا ہے۔ وہ صرف باٹم لائن یعنی کہ پیسوں ‌ پر نظر رکھتا ہے۔ اس نظام کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ تمام افراد سے زیادہ سے زیادہ کام کم سے کم پیسوں ‌ میں ‌ کیسے نکلوایا جائے۔ ان کو آپ کی پرسنل گروتھ یا ذاتی نشونما کی کچھ فکر نہیں ‌ ہوتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3