جان سے عزیز بیٹیوں کے دکھ


بیٹی ہوئی ہے۔ ہسپتال سے فون پر اطلاع ملی۔ میں نے فون بند کیا اور آفس کے میسنجر کو بلایا اور اور اسے پیسے دے کر دو ڈبے مٹھائی لانے کو کہا۔ ایک ڈبہ اپنے آفس میں تقسیم کی اور ایک ڈبہ ہسپتال کے لئے رکھ لی۔ مٹھائی کھانے پر کولیگ نے پو چھا ”کیاخوشی ہے؟“ میں نے کہا کہ ”بیٹی پیداہوئی ہے۔“ ”پہلی پہلی بیٹی ہے؟“ ”نہیں دوسری ہے“ میں نے جواب دیا تو اس نے مجھے حیرت سے دیکھا۔ مٹھائی لے کر میں ہسپتال پہنچا۔ کمرے میں دو تین رشتے دار خواتین موجود تھیں اور کمرے کا ماحول کچھ سنجیدہ سالگ رہا تھا۔

میں نے بیوی کو مبارک دی، بیٹی کو گود میں اٹھا کر پیار دیا اور سب کو مٹھائی کھانے کو کہا۔ ”اللہ تعالی بیٹا دے دیتا تو جوڑی بن جاتی،“ ایک رشتے دار خاتون نے کہا۔ میں نے دیکھا یہ بات سن کر میری بیوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مجھے سخت غصہ آیا لیکن بیوی نے آنکھوں کے اشارے سے مجھے خاموش رہنے کو کہا۔ ”بیٹا، بیٹیوں کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم نہیں کرتے“ اسی خاتون نے پھر کہا۔ ”لیکن مجھے تو بیٹی کی خوشی ہوئی ہے اور اس لئے میں نے مٹھائی بانٹی ہے۔ “

میری دونوں بیٹیاں بہت ہی پیاری ہیں۔ اور میں ان سے بہت زیادہ پیار بھی کرتا ہوں۔ بیٹے کی محبت اپنی جگہ ہے وہ اکلوتا ہونے کی وجہ سے سب کی آنکھوں کا تارا ہے اور مجھے بھی پیارا ہے۔ کئی دفعہ میری بیوی کہتی ہے کہ ”آپ بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں لیکن میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ میں سب کو ہی چاہتا ہوں۔“

اپنی اولاد کی سب ہی لوگ تعریف کرتے ہیں، لیکن میری دونوں بیٹیاں واقعی شروع ہی سے بہت لائق تھیں اور پڑھائی میں اچھا ہونے کی وجہ سے کلاس میں ہمیشہ پوزیشن لیتی تھیں۔ اسی کی دہائی کے آخر میں استطاعت نہ ہونے کے باوجود بیٹے اور بیٹیوں کوشہر کے سب سے اچھے سکول میں داخل کروایا۔ جب گزارا مشکل ہونے لگا تو بیوی کو بھی نوکری کے لئے گھر سے نکلنا پڑا۔ بچے وین پر سکول جاتے تھے ایک دن بڑی بیٹی نے کہا کہ ”پاپا میں کل سے سکول نہیں جاؤں گی، وین میں کھڑا ہو کر جانا پڑتا ہے اور بہت دھکے لگتے ہیں۔“ اس سے اگلے دن میں نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور پھر اگلے کئی سال میں اپنے آفس نو کی بجائے ساڑھے سات بجے پہنچ جاتا رہا۔

بڑی بیٹی کے لئے میں چاہتا تھا کہ وہ اپنے خاندان کی پہلی لیڈی ڈاکٹر بنے۔ اور اس نے میرا یہ خواب سچ کر دکھایا۔ کشمیر سے نوے کی دہائی میں پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا جس میں والدین اور طالب علموں کو ایک تکلیف دہ اور پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ لیکن بیٹی کی محنت اور اس کے اساتذہ کی بھرپور راہنمائی سے بیٹی کا میڈیکل میں داخلہ ہو گیا۔ ہم سارے اسے لاہور ہوسٹل میں چھوڑنے گئے۔

پہلی دفعہ وہ ہم سے جدا ہوئی تھی۔ اسے چھوڑتے ہوئے دل میں ہول اٹھ رہے تھے کہ وہ اکیلی ہوسٹل میں رہے گی۔ واپسی سارے رستے گاڑی چلاتے ہوئے میری آنکھیں برستی رہیں اور بیوی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دلاسا دیتی رہی۔ دو تین بعد اس کاشام کو فون آیا اور میری آواز سنتے ہی وہ رونے لگی، کہاکہ ”مشکل پڑھائی ہے میں یہا ں نہیں رہ سکتی۔“ میں نے کہا کہ ”بیٹا آج رات وہاں گزارو اور صبح میں آپ کو واپس لے آؤں گا۔“ اس رات مجھے نیند نہیں آئی۔

اور پھر صبح پانچ بجے اس کا دوبارہ فون آیا کہ ”پاپا جان نہیں آنا میں یہاں رہ لوں گی،“ کیونکہ اسے یقین تھا کہ پاپا جان صبح صبح اسے لینے آجائیں گے۔ اس کے بعد جب تک وہ ڈاکٹر نہیں بن گئی ہم ہر ہفتے اسے ملنے لاہور پہنچ جاتے۔ پھر چھوٹی بیٹی کا بھی یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو دونوں لاہور میں اکٹھی ہو گئیں۔ انہی دنوں کی بات ہے ایک دن ہماری ایک قریبی فیملی گھر آئی۔

خاتون نے باتوں باتوں میں کہا کہ ”تم نے دونوں بیٹیوں کو لاہور بھیج دیا ہے۔ دنیا بڑی خراب ہے یونیورسٹی میں لڑکیاں خراب ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی لڑکیوں پر اتنا پیسہ خرچ کر رہے ہو کل کو یہ دوسروں کے گھر چلی جاہیں گی۔“ ان کی یہ باتیں سن کر اور ان کی سوچ پر بہت دکھ ہوا۔ میرا جواب تھا کہ مجھے اپنی بیٹیوں پر بھروسا ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گی جس سے ان کی عزت پر کوئی حرف آئے۔ اور انھوں نے میرے بھروسے پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ وہ دونوں اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی میرے ساتھ شئیر کرتیں۔ ”آج ہم انار کلی گئے۔ آج ہم آئس کریم کھانے گئے۔ آج ہم چھ لڑکیاں ایک رکشے میں بیٹھ کر گئیں۔“ اور اس طرح کی اور چھوٹی بڑی باتیں۔

اور پھر ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ سب پیار محبت چھوڑ کر آپ کو اپنی نازوں سے پالی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھی ہم نے ان کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے۔ والدین کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں اور بیٹے شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں میں ایک پرسکون اور خوشحال زندگی گزاریں جس کے لئے وہ ہر حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کے معاملے میں والدین شادی کے بعد بھی بیٹیوں کا خیال رکھتے ہیں۔

یہی حال ہمارا بھی تھا۔ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہمارے بچے اپنے گھروں میں خوش و خرم رہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔ لیکن ہماری سب سے پیاری بیٹی ابتدا میں ہی ظلم کا شکار ہو گئی۔ ایک پوسٹ گریجویٹ برسر روزگار لڑکی جو کمائے بھی اور جو گھر کا سارا کام بھی کرے۔ پابندیاں اتنی کہ سگے بہن بھائی سے بات نہیں کرنی۔ ایک شہر میں رہتے ہوئے والدین سے ملنا نہیں، بات نہیں کرنی۔ لالچ اتنا کہ بیوی ہر ماہ اپنی تنخواہ ان کے ہاتھ میں دے اور ضرورت کی بیشتر چیزیں لڑکی کے والدین مہیا کریں۔

ذرا ذرا سی بات پر طعنے اور پٹائی۔ والدین اگر اپنے بیٹوں کی بھی اچھی تربیت کریں اور ان کو بتائیں کہ لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آتی ہے اس سے کیسا سلوک کرنا ہے۔ بیٹیاں والدین کے دکھ کی خاطر اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کو برداشت کرتی رہتی ہیں۔ اور کوشش کرتی ہیں کہ یہ صورتحال ان کے ماں باپ کو پتہ نہ چلے۔ ان ظالموں کو یہ نہیں پتہ کہ جتنے نازوانداز اور پیار محبت سے والدین اپنی بیٹیوں کو پال پوس کر پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ ان والدین اور بہن بھائیوں کی محبت ان بیٹیوں کے دل سے وہ نہیں نکال سکتے۔ اور ان کے اس طرح کے سلوک سے بیچارے والدین پر کیا گزرتی ہے۔ مجھے تو اپنی بیٹی سے پیار ہے اس لئے میں نے اسے اس جہنم میں ساری عمر جلتا رہنے کی بجائے اس جہنم سے بروقت نکال لیا ہے۔ اچھا کیا نہ میں نے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).