عمران خان کا ایک سال: کیا کھویا، کیا پایا


یومِ سیاہ اور یومِ تشکر بھی منایا گیا۔ مینڈیٹ کا 20 ٪ حصّہ آج ختم ہوا۔ عید بھی ابھی ابھی، یہ اک تلخ حقیقت ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، اور اس بات کا انکار کرنا شاید غلط ہوگا۔ عمران کو لایا گیا ایک سال گزر گیا 18 اگست کو حلف برداری بھی ہو گئی۔ عسکری قیادت کا مقصد بھی یہی رہا کہ ملک میں استحکا م آئے اس میں غلط ہی کیا ہے اور فوج کا اوّلین مقصد امن پسندی اور ملکی استحکام ہوتا ہے اور یہ دنیا کے ہر ملک کیا دستور ہے کہ وہ ملکی استحکام کے لئے آگے بڑھیں اور ہماری فوج نے بھی اپنا فرض نبایا، اسی لئے انہوں نے بھی پی تی آئی کا انتخاب کیا ہے تا کہ مزید کنٹینر والی رسومات اور فسادات سے عوام کو شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔

جہاں حکومت وفد نے سارا سال سابقہ حکومت کی ناکامیوں کا رونا رویا وہاں اپنی کارکردگی بھی کچھ مطمۂن نظر نہیں رہی مگر کاوش اچھی رہی۔ شرو عات تو بڑے بڑے دعووں سے کی گئی، عملا ً عوام کو سوا ئے پچھتاوے کے کچھ نظر آتا نہیں دِکھ رہا، پر عوام کی یہ غلط فہمی ہے سات دہا یوں کی خامیاں اک سال میں کیسے ختم کی جا سکتی ہیں ان کو مستحکم ہونے میں وقت تو لگتا ہی ہے گزشتہ کئی دہا ئیوں سے وزراء اعظم کے نام ہی بدلتے دیکھے گئے سب کا وہی منشور۔

ہوا کچھ یوں کہ ڈیم کی فنڈنگ کے لئے قومی خزانے سے 13 کروڑ اشتہارات پر لگا دیے گئے اور صرف 9 کروڑ چندہ اکٹھا ہوا جو کہ خسارہ قوم کا ہوا۔ حکومت اور عوام بھی اتنے معصوم کہ اور پوچھنے سے رہے حکومت نے اپنی بھرپور کوشش جا ری رکھی کہ کسی طرح اس عوام کا بھلا ہو جائے لیکن سیاسی مخالفت کی وجہ سے پائیہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ گزری، بڑے شہروں کے حالات کا جائزہ بھی لیا گیا کراچی سے بہت سے لوگ الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے حکومت میں آئے مگر حالات وہی پی پی پی سے نا امید ہو کہ عوام اب کسی کرشمہ کے انتظار میں آنکھیں تاک لگا بیٹھے

بیرونی دورے بھی مثبت رہے ہر ملک نے خاصی مالی مدد بھی کی۔ ان میں سب سے مقبول دورہِ امریکہ رہا، جہاں لوگوں نے اس افغا نستان کی لمبے عرصے کی جنگ بندی کے بعد اس کو مثبت اشارہ سمجھا اب وہی لوگ اس کو کشمیر بکاؤ دورہ عرض فرماتے ہیں یہ لوگ بھی بیوقوف ہے بالکل ایسے شخص کی مانند جو جیب سے خرچ کر کہ بندر کی ڈگڈگی اور ناچ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر بعد میں جیب بٹورتے ہیں کہ کیا بیوقوفی کہ جیب ہی خالی کر ڈالا اک بے نفع کام پہ۔

جہاں اک طرف حکومت نے اخراجات بچائے اور کچھ مقتدر علاقوں میں عمران حکومت مقبول رہی وہا ں مہنگا ئی اور افا دیت نے اس کی مقبو لیت کو کم بھی کر دیا۔ دوسری جا نب یہ سال احتساب اور گرفتا ریوں کا سال رہا، مختلف سیاسی لیڈر اس کا شکا ر رہے جو کی اک مثبت قدم رہا، اپو ز یشن کا احتساب کڑا رہا جب کہ دوسری جانب حکومتی عہدے داروں کا بھی خاصی تلخ احتساب رہا جس سے عوام خا صی واقف ہے۔ مختلف اداروں میں اصلاحات اور ٹیکس کی ادائیگی خوش آہن رہی۔ ایف بی آر بھی متحرک نظر آیا۔

شاید عوام النّاس کی یہ اپنی قسمت تھی یا پھر قسمت بنایا گیا حکومت کو دیانت دار لوگوں کی تلاش ہے 5 ملین گھروں اور 10 ملین نوکریوں کے وعدے محض خواب ہی نظر آئے وزراء کا ردوبدل اس سال کا دستور رہا۔ کہا گیا کہ جب ڈالر کی قیمت ایک روپیہ بڑھتی ہے تو 100 ارب قرضہ بڑھتا ہے اور سمجھ جانا کہ حکمران کرپٹ اور چور ہیں۔ بالآخر موجودہ حکومت کی اقتصادی ٹیم بھی خوابوں کی دنیا سے نکل آئی تھی جو کہ جب اپو زیشن میں رہ کر اقتصادی استواری کو اک دن یا اک رات کا کام سمجھتی رہی اور قرضوں کی بھر مار کر ڈالی، ڈالر کی قیمت میں چڑھاؤ کی وجہ سے کرنسی 40 ٪ کم ہوئی ہے اور 1400 ارب قرضہ بڑھا ہے۔

سال 2018۔ 19 میں تقریباً 16 بلین بیرونی قرضہ لیا گیا جس میں 14 بلین پاکستان تحریکِ انصا ف سے، ماہِ جولائی میں پی ٹی آئی کی نگراں حکومت نے 3 سے 4 بلین قرضہ وصول کیا گیا، سود کی شرح سے عوام کو مشکلات سے دوچار کیا گیا، اس ایک سال کے دورانیہ میں تقریباً 5 ملین لوگ غربت کی نچلی سطح پراور ڈیڑھ سے دو ملین لوگ بے روزگار ہوئے یہ سب 365 دن کے نتائج نہیں یہ تاریخ کا حصّہ ہیں، ہو سکتا ہے ملک آگے کی طرف گامزن ہو جائے۔

شاید ترقی یافتہ ممالک اسی طرح بد ترین حالات سے گزر کر ترقی کی راہ پہ گامزن ہوتے ہیں اس لئے حکومت کا حوصلہ عوام کے ساتھ ہے پریشان نہیں ہونا۔ اور بے چاری عوام کے حو صلے اس وزم کے ساتھ بلند ہیں کہ تبدیلی آئے گی۔ جہاں اک طرف حکومتِ وفد سے تھوڑا اختلاف ہے وہاں یہ بات قابلِ تعریف بھی ہے کہ اب تک اپوزیشن بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ خان صاحب صادق اور امین ہے، اس بات کو سمجھ کر اک امید پیدا ہوتی ہے کہ ملک کچھ نہ کچھ ترقی کرے گا خوش آہین بات کہ حکومت میں انٹیلیکچول لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور امید پہ دنیا بھی قائم ہے۔

ایک عمران اب بائیس کڑور اب کیا کیا کرے، ملکی ذمہ داری ہر شہری کی ہے حکومتیں گٹھ جوڑ کر بیٹھنے کو تیار نہیں، سابقہ ترقیاتی پروجیکٹ کی بندش اور رائے عامہ کو درپیش مسائل نے عوام کو بالکل نا ا مید کر دیا ہے تاریخ گواہ ہے کہ ملک کی ہر حکومت نے عوامی مسائل کو حکومت کی ہی نظر سے دیکھا، اور یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو خود میں بڑائی یا برائی دونوں نظر نہیں آتی اسی طرح کسی حکومت نے کبھی خود کو اپوزیشن کی نگاہ سے نہیں دیکھا نا ہی سوچا، سارا سال اپوزیشن کی احتساب کا رونا دھونا، کرپشن کرپشن کی رٹ سے حکومت وفد کی توجہ عوام سے ہٹا دی گئی۔

ٹی وی پروگراموں میں سیاسی منظر نامے میں گالی گلوچ کا کلچر دیکھا گیا۔ سوالات پر اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہوئے پنجا ب کے وزیرِ اعلیٰ کی تعریف اور مثال متعدد بار ہا سنی گئی باقی صوبوں کی گفتگو کو بالکل مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔ یہ صرف موجودہ حکومت نہیں بلکہ سابقہ ادوار کا بھی دستور رہا۔ جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ عمران کی حکومت گر جائے گی وہ یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دیں فرض کریں حکومت عمران کے ہاتھ سے چلی بھی جائے تو ن۔

لیگ اور پی پی پی کے مقتدر افراد تو حراست میں ہیں اور ق لیگ تو ناکام ہو چکی ہے تو کون حکومت میں آئے گا؟ اس بار سازشیں حکومت کے خلاف نہیں بلکہ مخالفین کے خلاف ہو رہی ہیں، واقعتاً تبدیلی آ چکی ہے۔ اس لئے میرا اک دوستانہ مشورہ ہے جیسا چل رہا چلنے دیا جائے شاید کچھ بن جائے، نہیں تو کسی اور طاقت نے عشر وں تک ڈیرہ جمائے رکھنا ہے جیسے ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ حکومت کی گرنے سے جو سب سے زیادہ شکار ہو گا وہ متوسط طبقہ ہو گا۔ امید ہے کہ ہم آگے بہت کچھ پا لیں گے۔ اس وقت صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ورنہ ملک ستر سالہ پرانے دور میں واپس چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).