عالم انسانیت کو بیدار ہونا ہو گا


مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ عالمی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ کوئی یہ حقیقت تسلیم کرے یا نہ کرے کشمیر کی یہ مزاحمتی سیاسی تحریک کی شدت نے عالمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ ایک گلوبل دنیا ہے اور جہاں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر میڈیا کا غلبہ ہے اور اس تناظر میں دنیا میں ہونے والے واقعات کو عالمی دنیا کی نظروں سے کسی بھی طو رپر اوجھل نہیں رکھا جاسکتا۔ بھارت کی ریاست اور حکومت جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہی ہیں اس پر آوازیں جہاں عالمی دنیا سے اٹھ رہی ہیں وہیں خود بھارت کے اندر سے بھی انسانی حقوق سے جڑے لوگ سمیت سول سوسائٹی بھی خاموش نہیں۔ بیس دنوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف کرفیویا مارشل لا کا سماں ہے بلکہ ہر اٹھنے والی آواز کو طاقت اور بندوق کے زو رپر ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

عالمی میڈیا، انسانی حقوق سے جڑے افراد اور اداروں سمیت سب ہی مشترکہ طور پر بھارت کی جانب سے کی جانے والی سنگین انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں پر اپنی اپنی سطح پر آوازیں بلند کررہے ہیں۔ لیکن ان مضبوط آوازوں کے باوجود عالمی دنیا کا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر جو ردعمل ہے وہ بہت کمزور ہے۔ نہ صرف عالمی ردعمل بلکہ اسلامی ممالک کا کردار میں بھی پرجوشیت نظر نہیں آرہی جو ظاہر کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر عالمی یا اسلامی دنیا کی بے حسی کا سوال زیادہ سنگین ہے۔ کیونکہ جو بھی بڑا ممالک جن کی بنیاد انسانی حقوق کی پاسداری سے جڑی ہے اور جو بڑی طاقتیں انسانی حقوق کے دفاع میں کھڑی نظر آتی ہیں اس کی بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحا ل پر کشمیر یا پاکستان کے لوگ کیا کچھ کہہ رہے ہیں اس سے بڑھ کر اہم سوال وہ ہے جو عالمی سطح پر میڈیا اور انسانی حقوق سے جڑے ادارے اٹھارہے ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ہیومین رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق سے جڑ ے دیگر ادارے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جارحیت اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر جو ردعمل دے رہے ہیں اس پر بھی عالمی دنیا نے وہ کچھ نہیں کیا جو ان کی سیاسی، سماجی اور قانونی ذمہ داری بنتی تھی۔ اقوام متحد ہ اور او آئی سی جیسے ادارے بھی یہاں محض بیان بازی تک محدود نظر آئے اور عملی طور پر ان کے اقدامات بھی کسی سمجھوتے کا شکار نظر آتے ہیں۔

ہمارے بعض اہل دانش یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عالمی دنیا میں ہماری بھارت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں اور کمزور معاشی ممالک کو عالمی دنیا میں موجود ڈپلومیسی کے محاذ پر کوئی بڑی پزیرائی نہیں ملتی۔ ان کے بقول مقبوضہ کشمیر میں ہمارے مقابلہ میں بھارت کا مقدمہ زیادہ مضبوط ہے اور عالمی دنیا اس مسئلہ کو محض بھارت کا داخلی مسئلہ سمجھتی ہے۔ یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ یہ بات بجا کے عالمی طاقتیں طاقت ور کے ساتھ ہی کھڑی ہوتی ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا سیاسی موقف غلط ہے اور ہمیں عالمی مجبوریوں کے باعث خاموش ہوکر بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ ایک کمزور حکمت عملی ہے اور ہمیں اس صورتحال سے گھبرانے کی بجائے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں سیاسی اور سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس میں ہماری پالیسی ردعمل کی سیاست سے جڑی رہی ہے اور ہم نے عالمی سفارت کاری میں تسلسل کے ساتھ وہ کچھ نہیں کیا جو ہمیں تسلسل کے ساتھ کرنا چاہیے تھا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں خاموش ہوکر بیٹھ جانا چاہیے۔ ہمیں سیاسی اور سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر نئی سیاست اور نئی سیاسی حکمت عملیاں درکا رہیں۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیرمیں جو کچھ ہورہا ہے اس پر عالمی دنیا کی توجہ حاصل کرنا ناممکن نہیں۔ عالمی دنیا میں ایک طرف حکمران طبقہ اور اس سے جڑے ادارے کھڑے ہیں تو دوسری طرف عالمی دنیا میں موجود عوام اور رائے عامہ بیدار کرنے والے افراد یا ادارے موجود ہیں۔ یہ ایک طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمیں ہر صورت میں ان کو جنجھوڑنا ہوگا اور ان کے ضمیروں کو زندہ کرکے ان کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر لانا ہے۔ یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کو سفارتکاری اورڈپلومیسی کے محاذ پر ”ڈپلومیٹک ایمرجنسی“ درکار ہے۔ ڈپلومیٹک ایمرجنسی غیر معمولی حالات میں روایتی طور طریقوں کی بجائے غیر معمولی اقدامات کی مدد سے آگے بڑھتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی دنیا کے سامنے فیصلے کرتے وقت اصول، نظریات، فکر، سوچ اور سچائی کی بجائے مفادات کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر انہوں نے بھارت اور پاکستان کے تناظر میں ذمہ دارانہ کردار اد ا نہ کیا تو اس کے اثرات محض ان ہی علاقوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی دنیا بھی اس پھیلنے والی جنگ سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔

ہمیں اپنی سفارتی میدان یا ڈپلومیسی کے محاذ پر کچھ نئی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے جو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں عالمی سطح پر ایک بڑی حمایت پیدا کرسکے۔ یہ جو اسلامی دنیا سے وہ آوازیں نہیں اٹھ رہی جو ہمیں درکار ہے اس سے ہمیں مایوس ہونے کی بجائے ان کے ساتھ رابطوں کو موثر بنانا اور نئی حکمت عملیوں کو ترتیب دینا ہوگا۔

عالمی میڈیا ایک بڑی طاقت ہے اور اس میں ہمیں ایک ذمہ دارانہ کردار کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارتی جارحیت کے خلاف رائے عامہ کی بیداری کی ایک بڑی جنگ لڑنی ہے۔ یہ جنگ قومی میڈیا میں لڑی جانی چاہیے اور عالمی میڈیا پر بھی ٹھوس حکمت عملی درکار ہے۔ ہمیں میڈیا کے محاذ پر بھارت کے اندر سے جو آوازیں مودی کی ہندواتہ پر مبنی سیاست کے تناظر میں اٹھ رہی ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں استعمال کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایک مضبوط سول سوسائٹی درکا ر ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ زیادہ بہتر طور پر لڑسکے اور ان میں انسانی حقوق سے جڑے لوگ اہم ہیں۔ اس وقت سول سوسائٹی کو کمزو رکرنے کی حکمت عملی کی بجائے اسے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو اس وقت دیگر ممالک میں موجود سفارتی دفاتر کو ایک بڑی سیاسی مہم میں تبدیل کرنا ہے جہاں وہ عالمی دنیا کو بھارت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جنجھوڑے اور ثابت کرے کہ بھارت کے اقدام سیاست، جمہوریت اور آئین کے برعکس ہیں۔ ہمیں اس زعم سے باہر نکلنا ہوگا کہ کشمیر کے تناظر میں ہمارا مقدمہ کمزور ہے۔ اصل مسئلہ مقدمہ کو زیادہ مضبوط اور فعال انداز میں لڑنے سے جڑا ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور سابق خارجہ سیکرٹری سمیت دیگر سابقین وزرات خارجہ اور سیکورٹی یا خارجہ امور سے جڑے افراد یا اہل قلم کو اس تحریک سے جوڑنا ہوگا۔ ہمیں کشمیر کے مقدمہ کو عالمی دنیا کی پارلیمنٹ سے جوڑنا ہوگا اور ا ن میں یہ سوچ پیدا کرنا ہوگی کہ بھارت کی سنگین خلاف ورزیوں پر ان کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہوگی۔

وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا کہ اگر عالمی دنیا ہماری کشمیر کے تناظر میں حمایت نہیں بھی کرتی تب بھی ہمیں نہ صرف ان کی حمایت کو جاری رکھنا ہے بلکہ آخری حدتک جانے سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری پالیسی جنگ نہیں ہے اور جو جنگ ہمیں لڑنی ہے و ہ سفارت کاری اور ڈپلومیسی کا میدان ہوگا۔ اگر یہ ہی ہماری حکمت عملی ہے تو ہمیں اس محاذ پر موجود اپنے داخلی مسائل کو سمجھ کر اور سابقہ غلطیوں کو تسلیم کرکے جہاں ایک طرف نئی حکمت عملیاں بنانی ہیں وہیں ہمیں دنیا کو بھی اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ کیونکہ سیاسی، سفارتی و ڈپلومیسی کے محاذ پر جنگ سیاسی تنہائی میں نہیں جیتی جاسکتی۔ اس کے لیے دنیا کو اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا اور یہ کام سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے اور اس کے لیے وزیر اعظم کو خود سیاسی قیادت کرنا ہوگی۔

اب وقت ہے کہ ہمیں اس سنگین بحرانی صورتحال میں اپنے داخلی سیاسی اور معاشی مسائل کا بھی موثر انداز میں حل تلاش کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر ہم یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ عالمی دنیا کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر انہوں نے مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم پر محض لفاظی تک اپنے کھیل کو محدود رکھا تو اس سے پاکستان اور بھارت دونوں کو جنگوں سے نہیں روکا جاسکے گا۔ اب بھی عالمی دنیا کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ایک متحرک اور فعال کردار ادا کرے کیونکہ اس کی فعالیت کے بغیر نہ کشمیر کا بحران حل ہوسکے گا اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کا جنگی ماحول امن، ترقی اور خوشحالی میں تبدیل ہوسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).