اسرائیل کو مان لیجیے مگر۔۔۔


یہ مارچ 2019 کی ایک خوشگوار سہ پہر تھی۔ اسلام آباد کی ایک اہم شخصیت نے چند صحافیوں کو بلا رکھا تھا۔ 26 فروری کو انڈین طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تھی جواباً پاکستانی فضائیہ نے نہ صرف انڈیا کے طیارے گرائے بلکہ ایک عدد پائلٹ کو بھی دبوچ لیا تھا جسے چند گھنٹوں میں ہی ہندوستان کے حوالے بھی کر دیا گیا۔

اس بڑے سے ہال میں بیٹھا ہر شخص بےچینی سے انڈیا اور پاکستان تناؤ کے اسباب، وجوہات، نتائج سے آگاہی چاہتا تھا۔

ایسے میں اس شخصیت نے چونکا دینے والا بیان دیا کہ ہندوستان اسرائیل کے ساتھ مل کر راجستھان کی سرحد پر حملہ کرنا چاہتا تھا جس کا توڑ بروقت انٹیلی جنس کے ذریعے ممکن ہوا اور پاکستان نے دنیا کو آگاہ کر کے انڈیا کو ان ارادوں سے باز رہنے کا اشارہ دیا جس کے باعث یہ خطرہ ٹل گیا۔

کمرے میں بیٹھا ہر شخص انہماک سے یہ گفتگو سن رہا تھا۔ سوال جواب کا سیشن شروع ہوا تو سوال پوچھا گیا کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ روابط رکھنے میں کیا قباحت ہے جب کہ بہت سے عرب ممالک بشمول ترکی کے اسرائیل کے ساتھ روابط ہیں اور ہم اس سلسلے میں کچھ زیادہ حساس کیوں ہیں؟

جواب میں اس اہم شخصیت نے برجستہ جواب دیا کہ ’دل نہیں مانتا، ہم اسرائیل کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں‘۔ یہ جواب سُن کر بہت سے چہروں پر اطمینان دوڑ گیا۔

ہم اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب جذباتی بھی ہے اور تاریخی حیثیت کا حامل بھی۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بانی مملکت محمد علی جناح ایک سال ہی زندہ رہ پائے۔ زندگی کے آخری 13 مہینوں میں اگر خارجہ پالیسی پر بابائے قوم کی کوئی اہم ہدایات سامنے آئیں تو وہ اسرائیل کے بارے میں تھیں۔

1947 میں اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گریون نے قائداعظم کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے متعلق ٹیلی گرام بھیجا تو انھوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ ان کے اس رویے سے یہ اخذ کیا گیا کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتا۔

یاد رہے کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح مذہبی بنیادوں پر وجود میں آیا اور دنیا کی پہلی یہودی ریاست کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل پاکستان کو واحد اسلامی جوہریریاست کے بطور اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر بم کو “اسلامی بم” کے نام سے اسرائیل ہی نے موسوم کیا۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلسطین پر قبضے اور فلسطینیوں کے حوالے سے پاکستان کے خصوصی جذبات ہیں جن کا خیال پاکستان کی ہر حکومت نے ہمیشہ رکھا ہے۔

رابرٹ فسک اپنی مشہو زمانہ کتاب ’تہذیبوں کی عالمی جنگ‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے مختلف ادوار میں اسلحے کی خریداری کرتا رہا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اپنی کتاب ’نیدر ہاک نار اے ڈوو‘ میں پاکستان، ہندوستان تناؤ کے پس منظر میں اسرائیلی وزیر خارجہ سلوون شیلون سے استنبول میں ہونے والی خفیہ ملاقات کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل بھارت دفاعی گٹھ جوڑ اور اسرائیل کے جدید ہتھیاروں سے خطرہ تھا۔ دوسری جانب اسرائیل بھی پاکستان کی جدید میزائلوں کی رینج سے خائف تھا۔ پاکستان علاقائی تناظر میں اسرائیل سے رابطے کی اہمیت کو سمجھ رہا تھا جسے برادر اسلامی ملک ترکی نے بھانپا اور خفیہ ملاقات کے لئے موقع اور جگہ فراہم کی۔

خورشید قصوری
استنبول میں اسرائیل اور پاکستانی وزرِائے خارجہ کی ملاقات کا انتظام ترکی کی حکومت نے کیا تھا

قصوری صاحب لکھتے ہیں کہ اسرائیلی وزیر خارجہ نے چھوٹتے ہی کہا کہ پاکستان فلسطین سے زیادہ فلسطین کا حامی کیوں ہے۔ وہ اپنی کتاب میں مزید تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین مختلف ادوار میں خفیہ تعلقات رہے ہیں مثلاً جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین انٹیلی جنس تعاون قائم رہا۔۔ خصوصاً مجاہدین کی استعداد بڑھانے کے لیے سی آئی اے افغان پائپ لائن تعاون موجود تھا۔ ایران عراق جنگ کے دوران انیس سو اسی سے تراسی تک ایران اسرائیل سے ہتھیار بھی خریدتا رہا ہے۔

بہرحال پاکستان کے لیے اسرائیل سے تعلقات رکھنا اہم ہے یا اسرائیل کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانا۔۔ سوال اتنا سا ہے کہ ملکوں کی خارجہ پالیسیاں مفادات اور نظریات دونوں کے ساتھ وجود میں آتی ہیں۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر کے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے یہ ایک اہم سوال ہے تاہم جن ممالک کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات کئی دہائیوں سے قائم ہیں اُن کے ساتھ تعلقات نے پاکستان کو کیا فائدہ دیا؟

مسئلہ کسی بھی اور ملک کا نہیں، مسئلہ ہماری پالیسیوں کا ہے۔ کیا اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے ہم برابری کے تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔ کیا دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ہماری تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ کیا آج کوئی ایک بھی ملک کشمیر کے معاملے پر ہمارے موقف کی واضح حمایت کر رہا ہے۔ کیا ہماری تجارت بھارت چھوڑ بنگلہ دیش جتنی بھی ہو سکتی ہے؟

سو غیرضروری بحث سے نکلنے اور عملی سوچ اپنانے کا وقت ہے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہمارا مفاد کیا ہے اور ہاں نظریات کی قربانی سے مفادات کی سودے بازی جنم لیتی ہے۔ سودا لے اور دے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سوچیے ہمارے پاس دینے کو کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp