پاکستان کے بابے، ان کے جنات اور بھارتی فوجی


ایسے ہی اک خیال آیا ہے۔ یہ پاکستان میں جتنے عامل بابے ہیں، پہنچے ہوئے بزرگان جن کے پاس جنات کی فوج ہے۔ مسئلہ کشمیر یہ حل کیوں نہیں کرا دیتے؟ سوچیں کہ کاملین و عاملین کے فوجی جن کشمیر میں بھارت کی فوج کے ڈیوٹی پر کھڑے سپاہی کی بندوق چھین لیں، نظر آئے بنا ایک چپت رسید کر دیں، کسی کی ’کتکتاڑیاں‘ یعنی گدگدی کردیں، تو یہ دشمن فوج وہاں کتنے دن قیام کرے گی؟ سب بھاگ لیں گے۔ اسی طرح ابھی تو وہ سبز پوش بھی زندہ ہوں گے جو 65 اور 71 کی جنگوں میں فضا میں اڑتے پائے گئے تھے اور جو بھارتی جہاز سے گرتے بموں کو زمین پر گرنے سے پہلے اچک لیتے تھے، وہ کیوں کشمیر میں متحرک نہیں ہو پا رہے؟

کچھ گدی نشینوں سے پوچھیے کہ آپ کے بزرگوار تو کیسی کیسی کرامات دکھا گئے، آپ کیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں؟ کیا آپ کی کہانیاں اور کرامات بھی معتقدین آپ کے پردہ پوش ہونے کے بعد عیاں کریں گے؟ مثلا بھارت اور پاکستان کے درمیان کارگل کے بعد بڑی جنگ پیر کاکی تارڑ نے رکوائی تھی؟ پلوامہ کے بعد خطرہ پیر یوسف رضا گیلانی کی کرامت سے ٹلا تھا، طالبان کی عفریت سے پیر سید فیصل صالح حیات نے خلاصی کرائی۔ اور 2019 میں بھارت کے ساتھ ایٹمی جنگ میں کم از کم چار کروڑ افراد کو ہلاک ہونا تھا، ان کے لیے مسیحا کوئی اور نہیں، ہمارے اپنے وزیرخارجہ، گدی نشین جناب شاہ محمود قریشی بنے تھے۔

ہمارے وزیر خارجہ خود پہنچے ہوئے پیر فقیر ہیں بھائی، ان کو ہلکا نہ لیجیے گا۔ ان کے بزرگوں کے مزار کے احاطے میں کھدا کنواں، پانی نہیں نوٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ( یہ الگ بات کہ جب نوٹوں کی ضرورت تھی، وہاں پانی ہوتا تھا، اب پانی کی ضرورت ہے وہاں نوٹ ہوتے ہیں، پتا نہیں انسان نوٹ کھائیں گے یا پئیں گے ) ۔ قریشی صاحب کے دست مہرباں سے شفا پانے کینسر کے مریض آتے ہیں۔ وہ اپنے بیس پچیس مریضوں کا کینسر دشمن فوجیوں میں منتقل کر دیں تو جو آٹھ موکل میرے پاس ہیں اور کان میں کچھ ہونیوں کی بھنک ڈالنے کے علاوہ کسی کام کے نہیں، ہم ان کو اس پروپیگنڈا پر لگا دیں گے کہ کشمیر میں دشمن فوجیوں کو سرطان لاحق ہونے لگا ہے۔

پھر دیکھیے کیسے بھاگتے ہیں سب۔ میرے موکلین پر شبہ نہ کیجیے گا، وہ آٹھ عدد سہی پر آٹھ لاکھ فوج پر بھاری ہیں۔ وہ کب کا یہ مسئلہ حل کرا چکے ہوتے دراصل مجھ خود غرض نے چار کو خبروں اور چار کو امریکہ میں کئی سو ملین ڈالر کے لاٹری نمبر کے کھوج میں مصروف کر رکھا ہے۔

وہ ظالم پچھلی صدی کے ان پڑھ جنات وہاں بھی کام نہیں آ رہے۔ خبروں پر مامور موکلین روز آن کر کہتے ہیں، سر آج کل خبریں ہیں کہاں، ڈرائنگ روموں سے اخباروں اور اخباروں سے ”ہم سب“ تک، ہر جگہ خواہشیں ہیں، قیاس آرائیاں ہیں۔ اور جن کی ڈیوٹی لاٹری نمبر کا کھوج لگا نا ہے، کہتے ہیں، باس یہ گورے بڑے چالاک ہیں۔ یہ جیتنے والے لاٹری نمبر خود ہاتھ سے لکھ پر اپنے کسی پیارے کو بتانے کی بجائے سب کمپیوٹر پر چھوڑ دیتے ہیں اور ہمھیں کمپیوٹر آتا نہیں۔ سوچ رہا ہوں ان نکموں کو پیر علی زیدی کی کسی آئی ٹی کمپنی میں چھوڑ آوں۔

اسد حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسد حسن

اسد احمد وائس آف امریکا کے نشریاتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ اور اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے علاوہ کھیلوں بالخصوص کرکٹ کے معاملات پر گہری آنکھ رکھتے ہیں۔غالب امکان ہے کہ آئندہ کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ّہم سبٗ پڑھنے والے اسد احمد کے فوری، تیکھے اور گہرے تجزیوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

asad-ahmad has 16 posts and counting.See all posts by asad-ahmad