رونق بڑی بی اور ایک خوف


آشیانہ رحمت کی تیسری منزل میں ثمر صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ پرانی بوسیدہ سی منزل، چھوٹے چھوٹے سے دو کمرے، ایک باورچی خانہ، بیٹھک نما ایک کمرہ اور ایک غسل خانہ۔ گھر کی دیواروں سے پینٹ اکثر جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔

سیمنٹ اور سیم کے سنگم نے اکثر جگہ تجریدی آرٹ بنا رکھا تھا۔ ان دیواروں کے آرٹ کو سمجھنے کے لیے کوئی خاص مہارت درکار نہ تھی بس افلاس سے آگاہی ساری الجھن سلجھا دیتی تھی۔

چپس کے مختلف رنگ اس بے رنگ گھر کے فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔ خستہ حال پردوں پر سلائیوں کی لکیریں ابھری ہوئیں تھیں۔ تمام تر پریشاں حالی کے باوجود گھر میں چیزیں قرینے سے سجی تھیں۔

گھر میں کل چھ افراد رہتے تھے۔ میاں بیوی، تین عدد ان کے جگر گوشے اور ایک سب کی بڑی بی۔ چار لوگ نوکری پر لگے تھے اور دو نوکری کے لیے پڑھ رہے تھے۔ صبع آٹھ بجے گھر چھ لوگوں سے خالی ہو جاتا تھا۔ پیچھے رہ جاتیں بڑی بی اور ان سے جڑی دنیا کی گہما گہمی۔ ان کی مصروفیت گھر میں بنی کھڑکی تھی جس کے دو پٹ تھے، ہلکے نیلے رنگ میں رنگے ہوئے۔

کھڑکی پر حفاظت کے لیے ہر بالشت کے بعد موٹے سریے لگے ہوئے تھے۔ جس پر زنگ زیادہ اور رنگ کم دکھائی دیتا تھا۔

کھڑکی کے پار گلی کی بجلی کی تاروں کے بچھے جال سے گزر کر نظر کبھی کبھی آسمان کا ایسا گوشہ ڈھونڈ لیتی تھی جس میں دن میں کوئی آوارہ بدلی اور رات میں کبھی گرد اور غبار کے پرے کوئی ٹمٹماتا ستارہ دکھ جاتا تھا۔

بڑی بی صفائی ستھرائی کی بڑی قائل تھی۔ وہ خود برسوں سے سفید رنگ کے لباس میں لپٹی ہوئی تھیں۔ کلائیوں سے سالہا سال پہلے چوڑیوں کی کھنک روٹھ گئی تھی۔ ان کے پاس چند ہی جوڑے تھے اور ہر ایک کا رنگ ان کے شوھر کے کفن جیسا تھا۔ روزانہ وہ اسی یک رنگ سفید کرتے، چوڑی دار پاجامے اور سر پر ہمرنگ دوپٹا لیے کمرے سے نکلتیں۔ منہ میں پان کی گلوری ہوتی، آنکھ میں سرمے کی لکیر اور پاؤں میں برسوں پرانی کولہا پوری چپل۔ کپڑوں سے میل کھاتی ایک چھڑی کے سہارے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کھڑکی کے پاس آ براجمان ہوتیں۔

کمرے میں چلے ریڈیو کی آواز ان کے کانوں پر پڑتی رہتی۔ پھیری والوں کی آواز کانوں میں پڑتے ہی وہ ان کی طرف متوجہ ہوتیں۔ پھل، سبزیوں کے دام دریافت کرتی اور پھر اوپر سے ایک ٹوکری مع رقم کے رسی کی مدد سے نیچے لٹکا دیتیں۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد سامان سمیت ٹوکری ان کے ہاتھ میں ہوتی۔

پھیری والوں سے برسوں کی جان پہچان تھی ہر پھیری والے کا شجرہ نسب ان کو حفظ تھا۔ خیریت دریافت کیے بغیر ان کو آگے نہ جانے دیتی۔ سامنے جھروکے سے جھانکتی خاتون آواز دے کر مخاطب کرتی۔ اور پھر دیر تک باتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ روزانہ کسی نہ کسی گھر سے من و سلویٰ کی طرح کوئی مزیدار پکوان ان کے گھر آ ہی جاتا۔ خالی برتن لوٹانے کی روایت ایسے گھروں میں نہیں ہوتی۔ محلے والے کبھی نیچے سے گزرتے تو کبھی اوپر آ کر ان کی خیریت معلوم کرتے۔ کسی بھی ضرورت پر بس ایک آواز دینے کو کہتے۔ انہیں آس پڑوس کی رونق تنہا نہ رہنے دیتی۔

دوپہر اور شام کے درمیان گھر کی رونقیں لوٹ آتیں۔ آتے ہی دن کی روداد دونوں طرف سے سنائی جاتی۔ بڑی بی محلے والوں کی تازہ حالات سے آگاہی دیتیں۔ کچھ مہنگائی کا رونا رویا جاتا۔ شام کی محفل کا محور بڑی بی ہی ہوتی۔

ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سب ان سے ہنسی مذاق کر کے ان کا دل لگائے رکھتے۔ شام پہر کوئی نہ کوئی رشتہ دار آن دھمکتا۔ بڑی بی دست شفقت پھیر کر دعائیں دیتی۔ کبھی لاڈ سے کان پکڑ کر اپنا حق جتاتی۔ اکثر دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیر کر دم بھی کر دیا کرتی۔ ان کا مشغلہ کہہ لیجیے یا عادت جو چند برسوں سے بہت پختہ ہوتی جا رہی تھی۔ وہ یہ کہ انہیں شکلیں ملانے کی لت پڑ گئی تھی۔ صورتوں میں مماثلت ڈھونڈتیں جہاں کسی دوسرے شخص کو شبہ بھی نہ گزرے۔ گھر آنے جانے والوں کی اپنے پرانے جاننے والوں سے مشابہت ڈھونڈنا ان کی فطرت بنتا جا رہا تھا۔ کوئی انہیں اپنے مرحوم خالو جیسا محسوس ہوتا تو کسی میں انہیں اپنی چھوٹی بہن کا شائبہ گزرتا۔ بچوں میں اپنے وہ بھانجے بھتیجے مل جاتے جو اب جوانی کی سرحد سے گزر کر خود ادھیڑ عمر ہو گئے تھے۔ کسی لڑکی میں انہیں اپنی پرانی سہیلی کی شادی والی چھب معلوم پڑتی تو کسی نوجوان میں اپنے مرحوم بھائی کا عکس۔ اس میں وہ کوئی خاص تمیز روا نہ رکھتیں نہ ہی کسی کا دل رکھنا مقصود ہوتا۔

کسی کم رو کا پری چہرے سے موازنہ کرنے بیٹھ جاتیں تو کبھی ستواں ناک کو چپٹی ناک سے مطابقت دے دیتیں۔ چھوٹی چھوٹی سی انکھیں جن کے کھلنے پر بھی بند ہونے کا گماں ہوتا۔ ان کو غزال آنکھوں جیسا کہہ دیتی۔ پھولوں کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کو موٹے ہونٹوں جیسا گردانتیں۔ یعنی پورب اور پچھم کو ایک کر دیتیں۔ صرف کہتی ہی نہیں بلکہ اس پر تکرار اور بحث بھی جاری رہتی۔

اکثر گھر والے ان سے کہتے کہ جو مطابقت آپ نے تلاش کی اس میں بس ایک بات مشترک ہے۔ کہ دوسرا شخص بھی دوہونٹ، دو انکھیں، ایک ناک اور دو کان رکھتا ہے۔ ثمر مبارک کی بیگم ہنستے ہنستے فرماتی بڑی بی شکر کیجئے شکلیں ملانے پر ٹیکس نہیں لگا ورنہ آپ کو سب سے زیادہ ٹیکس بھرنا پڑتا۔ اور ثمر صاحب کہتے کہ اگر اس عادت پر فرد جرم عائد ہوتی تو آپ کو تاعمر قید بامشقت کی سزا ضرور ملتی۔

یہ سب سنتے ہوئے بڑی بی بس مسکرا دیتیں۔ کسی کو وہ کیا بتاتیں کہ دل میں نقش شکلوں کی رونق کو اردگرد پھیلی زندگی میں بکھرے چہروں سے مشابہت دینے کی اس مشق نے ہی تو ان کی زندگی میں وہ دھیما سا اجالا کر رکھا تھا جہاں برسوں پہلے بینائی کھو دینے کے باعث بس تاریکی ہی تاریکی رہ گئی تھی۔ ان کی نابینا آنکھوں میں نئے چہروں کی جگہ نہیں تھی تو کیا ہوا۔ پرانی یادوں کی مٹی سے نئی شکل تراش لینے کا ہنر تو ان کے ہاتھوں نے سیکھ ہی لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).