فصیل شہر تباہ ہوئی اور ہوا چپ رہی


وزیراعظم پاکستان کی تقریر کے بعد کشمیر کے مسئلے کو جذباتیت کے تناظر میں نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھیں۔ موجودہ صورتحال کسی بھی منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک جمود کا شکار ہو چکی ہے۔

تجھے خبر ہو تو بول اے مرے ستارہ شب
مری سمجھ میں تو آتا نہیں اشارہ شب

قوموں کو درپیش مسائل تین نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو سنگین بحران کی صورت نمودار ہوتے ہیں اور جن کے تدارک کے لئے حکومت کے پاس وقت انتہائی کم ہوتا ہے۔ ان کو آپ ہنگامی بنیادوں پہ حل کرنے کے لئے سارے وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔

دوسری قسم کے مسائل قانونی و سیاسی ہوتے ہیں جن کو حل کرنے کے لئے آپ کو قانونی مہارت اور باریک بینی چاہیے ہوتی ہے۔ آپ مسئلے کی گہرائی کو سمجھتے ہیں اور اس کے حل کے لئے اپنی تمام قابلیت صرف کر دیتے ہیں اور اس نوعیت کے مسائل بھی حل ہونے میں کئی دہائیوں کا وقت لیتے ہیں۔

تیسرے مسائل وہ ہوتے ہیں جن کا حل بادی النظر میں ممکن نہیں ہوتا ان کے لئے آپ ایک پوری نسل تیار کرتے ہیں۔ ذہن سازی کرتے ہیں۔ ایک حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں اور ایک پورا بیانیہ ترتیب دیتے ہیں۔ اور یہ جدوجہد کئی صدیوں پہ محیط ہوتی ہے۔

اسے میں ایک مسلسل چراغ کر دیتا
مری گرفت میں ہوتا جو استعارہ شب

بات بڑی تکلیف دہ ہے مگر مسئلہ کشمیر کا مستقبل قریب تو دور مستقبل بعید میں بھی کسی حل کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان کا کیس اتنا کمزور بھی نہیں تھا جتنا ہم نے سمجھا اور اگر یکسوئی سے آگے بڑھایا جاتا تو اس سے بہتر موقع گزشتہ ستر سال کی تاریخ میں نہیں آیا تھا۔ جلا وطن حکومت کا قیام، بیورو برائے کشمیر خارجہ امور اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے طریقہ انتظام و انصرام پہ نظرثانی سے مسئلہ کشمیر کا دھارا ہی تبدیل کیا جا سکتا تھا مگر ہم وہی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی مدد کی مثلث سے باہر ہی نہ نکلے۔

میں ایک چراغ کہاں تک مزاحمت کرتا
مرے خلاف تھا کتنا بڑا ادارہ شب

کرفیو اٹھے گا تو کشمیری بھی اٹھیں گے اور پھر جنازے اٹھیں گے۔ وادی لہو لہو ہو گی اورپھر ایک ہولناک سکوت۔ شاخ زیتون پر کم سن فاختاؤں کے بسیرے اجاڑ دیے جائیں گے۔ زغفرانی رنگ کا پرچم تھامے ایک لشکر بے اماں گل زمینوں کو پامال کر دے گا۔ آرزو مند آنکھیں، بشارت طلب دل اور دعاؤں کو اٹھے ہاتھ سب بے ثمر رہ جائیں گے۔ ہوا پھر بھی چپ رہے گی۔

بہت عرصہ قبل ایک ناول میں پڑھا تھا کہ: ”بڑے شہروں میں بڑے شیطان رہتے ہیں اور پھر بڑے فرشتے آتے ہیں تا کہ ان کا مقابلہ کر کے توازن قائم کر سکیں مگر نقصان میں ہمشیہ غریب انسان رہتے ہیں جو اس ہرمجدون کی لڑائی کا ایندھن بنتے ہیں۔“

بہت سے چاند بہت سے چراغ کم نکلے
بنانے بیٹھا جو میں رات گوشوارہ شب

مزاحمت کی اپنی ہی جزئیات و حرکیات ہوتی ہیں۔ مزاحمت کی تحریکیں نہ تو راتوں رات ابھاری جا سکتی ہیں اور نہ ختم کی جا سکتی ہیں۔ بات بڑی سادہ سی ہے کہ کشمیریوں کو اب اپنی لڑائی خود لڑنی ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر کا بین السطور پیغام یہی تھا۔

کسی بھی صبح کا مرہم اثر نہیں کرتا
کہ ہر سحر ہے یہاں دوسرا کنارہ شب

(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقومی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).