خطے میں بدلتے ہوئے اتحاد اور گرم پانی پلیٹ میں


\"shafi-bhatti\"گزشتہ مہینوں تہران میں سہ فریقی ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں بھارت،ایران اور افغانستان فریق تھے اور ان کو امریکہ بہادر کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس اتحاد کا مقصد چاہ بہار بندرگاہ کو گوادر کے مقابلے میں کھڑا کرنا، چین کی سستے داموں مشرق وسطی تک پیش قدمی روکنا اور افغانستان کو پاکستان کے خلاف اکسائے رکھنا تاکہ پائیدار امن قائم نہ ہوسکے اور پاکستان کبھی ایک معتبر کردار ادا نہ کرسکے۔ اس تحاد سے وقتی طور پر پاکستان اور چین کو شدید جھٹکا لگا۔ لیکن کلبهوشن کی گرفتاری، امریکہ کا شام اور مشرق وسطیٰ کے معاملات سے خود کو وقتی جدا کرنا اور روس کی شام کے معاملات میں مداخلت کا بڑھنا اور بھارت کے جنگی جنون نے خطےکی صورت حال یکسر بدل کے رکھ دی۔ کل کے حریف آج کے حلیف بن گئے ہیں۔

ایک وہ وقت تھا جب سوویت یونین کو گرم پانیوں سے روکنے کے لیے ہم امریکی ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بنے رہے۔ ہم اس وقت تک ڈٹے رہے جب تک امریکہ بہادر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس میں ہمارا حکمران طبقہ سب سے بڑا قصوروار ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کی طوالت کی خاطر ہمیں آگ اور خون کے دریا میں دھکیل دیا جو ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ اس سارے معاملے میں ہمارے علمائے دین کے فتوؤں سے لے کر جہاد کے فضائل تک سب نے اہم کردار ادا کیا لیکن آج صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ ہم آج روس کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں،خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں کہ ہم نے سفارتی محاذ پر انڈیا کو چت کر دیا۔ میرا سوال ہے بھائی کون سا سفارتی محاذ؟ وہ سفارتی محاذ جس کے دباؤ میں آکر بنگلہ دیش اور نیپال نے سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ ایک بات ہمیں جان لینی چاہیے کہ دنیا کی نظر میں ابھی ہماری اتنی وقعت نہیں بنی جتنی حکمران طبقہ بنا رہا ہے۔ اگر ہماری اہمیت ہوتی تو نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ملک کبھی بھی سارک میں شرکت سے انکار نہیں کرتے۔ آج روس، جسے ہم ماضی میں کافر کہتے تھے، کو اپنا بڑا اتحادی بنانے کے چکر میں ہیں یعنی اب گرم پانی ہم پلیٹ میں رکھ کر دینے کو تیار ہیں۔

ایران نے اپنی خارجہ پالیسی میں یوٹرن لیتے ہوئے پاکستان کے موقف کی حمایت کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی اقتصادی راہ داری میں شراکت داری کی بھی پیش کش کر دی۔ پہلے ایران گوادر کو پس پشت ڈال کے شاہراہ سلک کی تکمیل چاہتا تھا لیکن اب ایران اپنی اس شاہراہ کو سی پیک سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو انڈیا کی چاہ بہار میں کی گئی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی جس کے انڈیا اور اس کے اتحادیوں کو گہرے اور دور رس نقصانات ہوں گے۔ رہی بات افغانستان کی تو اس کی کٹھ پتلی حکومت کسی بھی وقت ڈھرن تختہ ہوسکتی ہے۔ آرمی چیف کی جانب سے بارڈر مینجمنٹ کمیٹی کو فعال کرنا اور چوکیوں کے قیام سے ہشت گردی کی کارروائیوں میں کافی حد تک کمی ہوگی۔ مستقبل قریب میں مجھے روس، چین،پاکستان اور ترکی کا ایک بلاک بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جو مشرق وسطیٰ سے لے کر یورپ تک کا ایک مضبوط کردار ادا کرے گا۔ اس ساری صورت حال میں بھارت کی پوزیشن مجهے کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔

دوسری جانب اگر بھارتی اتحادیوں کو دیکھا جائے تو خطے میں اس وقت بنگلہ دیش اس کا سب سے بڑا اتحادی ہے لیکن جب حسینہ واجد کی حکومت جائے گی تو صورت حال یکسر مختلف ہو جائے گی۔ یہی حال افغان حکومت کا بھی ہے۔ لیکن اس دوران ہمیں اپنے داخلی معاملات پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔ ایران اب یہ جان چکا ہے کہ بلوچستان میں اگر بدامنی ہوگی تو اس کے اثرات ایران تک جائیں گے اس لیے ایران اب کسی بھی باغی گروہ کی پشت پناہی نہیں گرے گا۔ اس لیے ہمارے تجزیہ نگاروں کو بجائے تنقید کے تعمیری باتیں کرنی چاہیں تاکہ ہم اپنے جغرافیے میں مضبوط ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments