نکلنا پراگ کے لئے اور رکنا فرینکفرٹ ایرپورٹ پر


زندگی کے بھاگتے دوڑتے دن، سانس لینے کی مہلت نہیں۔ گھر، بچے، پروفیشن سب ساتھ ساتھ نبھاہ رہے ہیں۔ شعبہ جاتی ضروریات کے تحت ایک سفر درپیش ہے اور انکار کا یارا نہیں!

میڈیکل سائنس ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں دن رات تحقیقات کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ پیچیدہ گتھیاں حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کبھی کوئی جواب ملتا ہے اور کبھی کوئی سوال مزید وقت مانگتا ہے۔ ان تحقیقات کو ہر سال ڈاکٹروں کے اجتماع میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہر ڈاکٹر اپنی متعلقہ فیلڈ کی کانفرنس میں شرکت کرے۔ یہ اپنے شعبے میں ہونے والی نئى پیش رفت سے شناسائی کا ایک موثر طریقہ ہے۔

سو کانفرنس منعقد ہو رہی ہے آسٹریا کے شہر ویانا میں، سگمنڈ فرائیڈ کا شہر ویانا! اب ویانا جائیں اور پراگ اور بڈاپسٹ کو ملے بغیر لوٹ آئیں یہ تو زیادتی ہے۔ ہسپتال سے چھٹی مل چکی ہے، ویزے کی مشکل حل کر چکے ہیں۔ شینگن ویزے کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ یورپ کے کسی بھی شہر میں جا نکلیں، کوئی ممانعت نہیں۔

یورپ کا تعارف ہمیں مستنصر حسین تارڑ کی کتاب “نکلے تیری تلاش میں” سے ہوا۔ ابا اردو ڈائجسٹ شوق اور باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے اور ابا کے ساتھ ہم بھی، چاہے کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے کہ بچپن کا زمانہ تھا اور ہمارے ساتھ کے بچے تعلیم و تربیت اور نونہال سے ہی باہر نہیں نکلے تھے۔ اس زمانے میں تارڑ کا قسط وار سفر نامہ چھپنا شروع ہوا تو انجان دیسوں کا سفر اور رنگ رنگ کی داستانوں نے ایک بچی کی آنکھوں میں اجنبی سرزمینوں کی سیاحت کے خواب سجا دیئے۔ وہ خواب ہمارے ساتھ ساتھ بڑے ہوئے اور جب ان کے تعاقب میں ان راستوں سے گزرے تو معلوم ہوا کہ زیب داستان کے رنگ کچھ زیادہ تھے جو اس وقت تو ہم معصوم ایمان لے آئے تھے کہ دنیا ابھی ہاتھ میں نہیں سمٹی تھی۔

کچھ تعلیمی کیرئیر کی ضرورت اور کچھ شوق آوارگی تھا، سو یورپ گھومنے کا خوب موقع ملا مگر سوئے اتفاق کہ مرکزی یورپ کا پروگرام کئی دفعہ بنا اور ملتوی ہوا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ دانہ پانی نصیب میں لکھا نہیں گیا تھا۔ مگر اب محسوس ہو رہا ہے کہ اس سال اگست میں پراگ، ویانا اور بڈاپسٹ ہمارے سفر کی کتاب میں لکھا جا چکا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ نامہ اعمال میں اندراج ہو چکا ہے۔

ہمیں ہسپتال سے مریض دیکھ کے نکلنا تھا۔ مریضوں کی لمبی قطار، کام جلدی جلدی بھگتایا اور سیدھے ایرپورٹ۔ تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا، کاؤنٹر والی بچی کو شاید چہرہ پڑھنا آتا تھا سو ہمارے ساتھ جو مہربانی اس نے کی اس کاعلم جہاز اڑنے کے بعد ہوا۔ جہاز کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہم میونخ کے راستے جا رہے تھے۔ ہم اپنی سیٹ پہ پہنچے، ساتھ والی تین سیٹیں فارغ تھیں۔ مسافر آ رہے تھے اور اپنی اپنی سیٹوں پہ بیٹھ رہے تھے۔ ہم حسب معمول کتاب میں گم تھے۔ چونکے اس وقت، جب دیکھا کہ بھرے ہوئے جہاز میں صرف ہمارے ساتھ والی سیٹیں خالی تھیں۔ اس وقت تو ایسا لگا جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔ اردگرد والے للچائی نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ جہاز اڑتے ہی ہم ان چار سیٹوں پہ دراز ہو گئے۔ ننید کا تو سوال نہیں تھا لیکن لیٹ کے کتاب پڑھنے کا اپنا ہی مزا تھا۔

ہم میونخ پہنچنے ہی والے تھے، سوچا اگلی فلائٹ کا وقت دیکھ لیا جائے۔ اور ہم یہ دیکھ کے بھونچکا رہ گئے کہ پراگ اور میونخ کے درمیان ہمیں فرینکفرٹ جانا تھا۔ خدا جانے یہ کیسے ہوا مگر اب یہ خواری لکھی جا چکی تھی۔ ہمارے جہاز کی لینڈنگ اور اگلے جہاز کی بورڈنگ میں صرف بیس منٹ کا وقفہ تھا اور ہمیں علم تھا کہ یہ کافی نہیں ہے۔ ائر ہوسٹس کو بلا کر اپنی بپتا سنائی، جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ ہمیں دروازے کے پاس لے گئی تا کہ ہم جلدی نکل سکیں۔

جونہی جہاز رکا، ہم لوگوں کی خشمگیں نگاہوں کی پرواہ کیے بغیر فورا باہر کی طرف دوڑے۔ جہاز سے نکل کے سکیورٹی چیک ہمیشہ کی طرح کوٹ جوتے اتروا کے ہوا۔ ہماری آنکھیں گھڑی پہ اور دل کی دھڑکنیں قابو سے باہر تھیں۔ سکیورٹی کلیرنس کے بعد شیطان کی آنت کی طرح پھیلے ائرپورٹ کے ایکسلیٹر پھلانگتے پھلانگتے کئی منزلوں سے اوپر نیچے ہوتے امیگریشن آفیسر کے پاس جا پہنچے۔ کم بخت سانس قابو میں نہیں تھی اور وہ پوچھ رہا تھا کیا تم راولپنڈی میں پیدا ہوئیں تھیں۔ دل چاہا کہوں بھائی یہ حادثہ پچھلے صدی میں کہیں رونما ہوا تھا، کس زمانے کی بات کرتے ہو۔

بےچارہ ہماری تفصیل سے کچھ کنفیوز ہو چکا تھا۔ پاکستانی قومیت کے ساتھ ہرا پاسپورٹ، رہائش ملک سے باہر، شینگن ویزا سپین کا، یورپ میں داخلہ پراگ میں، روانگی بڈاپسٹ سے، کانفرنس ویانا میں اور موصوفہ کھڑی ہیں میونخ کے کاؤنٹر پہ اور چہرے پہ ہوائیاں اُڑ رہی ہیں کہ فلائٹ چھوٹ جانے کی پوری امید ہے۔

اور وہ بھائی صاحب ہیں کہ ہم سے دہشت گردی کا حال احوال پوچھ رہے ہیں کہ موصوف شمالی علاقوں کی سیر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی گرل فرینڈ میڈیا کی خبروں پہ یقین رکھتی ہے۔ کچھ جملوں میں اسے اطمینان دلوا کے عرض کی کہ ہماری اگلی فلائٹ کی بورڈنگ کلوز ہونے کوہے۔ خیر اس نے مہر لگائی اور ہم دوڑے اگلے مرحلے کی طرف کہ ہمیں اگلے ٹرمینل پہ پہنچنا تھا اور وہ بھی ٹرین پہ بیٹھ کے۔ قصہ مختصر ہم جہاز پہ سوار ہونے والے آخری مسافر تھے۔

ہمارے داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہوا، جہاز اڑا، ہم نے ایک کپ چائے پی اور لیجیے فرینکفرٹ پہنچ گئے۔ اب ہم نے پراگ کا جہاز پکڑنا ہے اور اس میں ایک گھنٹہ باقی ہے۔

ہم لاؤنج میں بیٹھے ہیں، بھانت بھانت کے مسافر ہیں اور ان کے نامانوس الفاظ میں گفتگو۔ ہمیں ائرپورٹ کی دنیا بہت تھرلنگ لگتی ہے۔ اجنبی لوگ کچھ دیر کو ملتے ہیں اور شاید ملتے بھی نہیں، بس ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں پھر کبھی نہ ملنے کے لئے۔ مختلف رنگ و نسل، مختلف قومیت کے لوگ اس ایک گھڑی میں ایک جگہ پہ اکھٹے کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی زمان ومکان کا فلسفہ ہے جس میں ہم سب بندھے ہوئے ہیں، ڈوری کہیں دور سے ہل رہی ہے۔

ہماری فلائٹ اناؤنس ہو چکی ہے اور ہم پراگ جا رہے ہیں۔

میلان کنڈیرا اور ویکلاف ہیول کا دیس پراگ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).