مسئلہ کشمیر اور عالمی عدالت انصاف


گذشتہ دنوں ایک امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔

اس بنا پر پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس لے جانے پر مشاورت کر رہی ہے۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ہیگ میں واقع ہے اور پندرہ ججوں پر مشتمل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد 1945 میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی اس عدالت کا بنیادی کام قومی ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات کو حل کرنا ہے تاکہ جنگ وجدل کے بجائے پرامن طریقے سے تنازعات کو حل کیا جاسکے۔

اگر کوئی ملک چاہے تو عالمی عدالت کی جوڈیشل کارروائی میں شامل نہیں ہو سکتا ہے بشرطیکہ کوئی خصوصی معاہدہ موجودہ نہ ہو ورنہ ایک بار اگر کوئی ملک عالمی عدالت انصاف کی اختیار سماعت کو تسلیم کرے تو پھر لازماً اس عدالت فیصلے ماننے پڑتے ہیں کیونکہ اس کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں جن کے خلاف اپیل بھی نہیں ہو سکتی ہے۔

عالمی عدالت انصاف نے اپنے قیام سے اب تک 150 سے زائد مختلف نوعیت کے مقدمات کی سماعت کی ہے۔  ریاستوں کے درمیان مقدمات کی سماعت کے علاوہ یہ عدالت اقوام متحدہ کی دیگر ذیلی تنظیموں کو ان کی استدعا پر مشورہ دینے کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔

نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم نے مزید کہا کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج فورا مداخلت کرے چونکہ جموں و کشمیر میں اس وقت 80 لاکھ لوگوں کی جانوں کو سخت خطرہ لاحق ہے۔”

لیکن اقوام متحدہ کے چارٹر کے Chapter سات کو Invoke کئے بغیر کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج مداخلت نہیں کرسکتی ہے، کیونکہ آرٹیکل سات کے تحت ہی سیکورٹی کونسل کو یہ اجازت ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ آیا انٹرنیشنل امن اور سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہے کہ نہیں یا دنیا کی امن اور سیکورٹی کے خلاف جارحیت ہوئی ہے کہ نہیں؟

اس بات کو طے کرنے کے بعد سیکورٹی کونسل فیصلہ کرتی ہے کہ آیا فوجی یا غیر فوجی ایکشن کے ذریعے سے بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کو بحال کیا جائے۔

مسئلہ کشمیر چونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب نمبر چھ کے زمرے میں آتا ہے جو پرامن ذرائع سے تنازعات کے حل سے متعلق ہے۔ اس لئے مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی پاس کی ہوئی قراردادوں پرامن ذرائع سے بذریعہ استصواب رائے کشمیر ایشو کو حل کرنے کا کہا گیا ہے۔

لیکن وزیر اعظم پاکستان نے کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کرنے کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب مودی سرکار نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد امریکی صدر ڑونلڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو بھی رد کر دیا۔

 بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف حکومت پاکستان نے چین کی مدد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی رجوع کیا مگر چین کے علاؤہ سکیورٹی کونسل کے دیگر چار ممبران نے مسئلہ کشمیر پر بلائے گئے اس غیر رسمی اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ تک جاری کرنے سے اجتناب کیا۔

چونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل سے کسی بھی قسم کی قرارداد پاس کروانے کے لئے یہ لازمی ہے کہ سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران سیمت دیگر دس غیر مستقل ممبران میں سے 9 ممبران اس قرارداد کے حق میں ووٹ دے دیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران میں سے اگر کوئی ایک ممبر بھی کسی قرارداد کے خلاف ورٹ دے تو وہ قرارداد پاس نہیں ہو سکتی ہے، یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کئی اہم تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر اور فلسطین حل نہیں ہو پا رہے ہیں۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی بات کررہے ہیں مگر نریندر مودی نے امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کو شکریے کے ساتھ مسترد کردیا۔ جس کی اصل وجہ درحقیت مودی سرکار کا یہ موقوف ہے کہ انڈین زیر کنٹرول جموں و کشمیر پر مذاکرات ممکن نہیں ہے بلکہ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مذاکرات ہونگے۔

 مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ کیے گئے معاہدہ الحاق نامے کی بنیاد پر متنازع ریاست جموں وکشمیر پر بھارت کے واضح موقف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مودی سرکار کی کشمیر کے حوالے سے خارجہ پالیسی اور سیاست کا اصل ہدفِ جموں و کشمیر سے زیادہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہے۔

اسی لئے وزیراعظم پاکستان گزشتہ دنوں اپنے دورہ آزاد کشمیر میں انڈیا کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر انڈیا آزادکشمیر پر حملہ کرے گا تو پاکستان اس کا بہت سخت جواب دیے گا۔

اس وقت انڈیا کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں آٹھ لاکھ سے زائد فوجی اہلکار تعینات ہیں جس کی وجہ سے اس وقت جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ میلٹرایزڑ زون بن گیا ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

مورخہ پانچ اگست 2019 کو مودی سرکار نے دستاویز الحاق نامے کو یکطرفہ طور پر ختم کرکے جموں وکشمیر پر اس طرح قبضہ جمایا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے۔  انڈیا نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فوراً بعد وہاں کرفیو نافذ کیا جو کہ بدستور جاری ہے۔

تمام کشمیری سیاسی قایدین کو پابند سلاسل کیا ہے جبکہ وادی کشمیر میں انٹرنٹ فون سروس اور دیگر ذرایع ابلاغ پر بھی پابندی لگائی گئی ہے تاکہ کشمیریوں کی چیخیں دنیا کو سنائی نہ دیں۔

انڈیا نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 سیکشن 4 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک متنازع علاقے پر براہ راست قبضہ کیا ہے، جو کہ بین اقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے واضح رہے کہ 22 اکتوبر 1947 کی خونی جنگ کے نتیجے میں مسلہ کشمیر نے جنم لیا تھا۔

 انٹرنیشنل لاء کا یہ واضح اصول ہے کہ دوران جنگ کسی علاقے پر کوئی ملک قبضہ کرتا ہے اور اس علاقے میں اپنی اقتدار اعلی قایم کرے تو وہ علاقے متنازعہ اور Defacto کہلاتے ہیں۔

 جموں وکشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرکے حالیہ دنوں میں مودی سرکار نے جموں و کشمیر کو براہ راست اپنی سنٹرل حکومت کے زیر انتظام لایا ہے مگر انٹرنیشنل لا کے تحت انڈیا کے زیر کنٹرول جموں وکشمیر بدستور Defactoعلاقے ہی تصور ہوں گے جس طرح پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہیں۔

انڈین حکومت کی اس غیر قانونی یکطرفہ اقدام کے خلاف حکومت پاکستان نے سیکورٹی کونسل سے رجوع کیا تھا مگر نتائج توتعات کے برعکس آنے پر اب عالمی عدالت انصاف جانے کے لئے مشاورت کر رہی ہے جو کہ ایک اہم قدم ہے۔  مگر اس میں کامیابی کے لئے پہلی شرط اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 36کے تحت دونوں فریقین کا راضی ہونا ضروری ہے اور

 موجودہ صورتِ حال میں انڈیا کا راضی ہونا مشکل لگتا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے اور بھی ٹیکنیکل مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے ۔

مثال کے طور پر پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں بھی سٹیٹ سبجکٹ رول سال 1954 کے بعد سے معطل ہے جس کو بنیاد بنا کر انڈین میڈیا اس وقت زور وشور سے پروپیگنڈا کررہا ہے، جس پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔

 اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ناردرن ایریاز/ موجودہ گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی لوکل اتھارتی کی حکومت کے قیام سے معتلق سوالات کھڑے ہونے کے بھی قوی امکانات موجود ہیں، جو مزید پریشان کن حالات پیدا کرنے کی باعث بن سکتے ہیں۔

اس لیے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جانے والا راستہ بظاھر بہت آسان نظر آتا ہے مگر درحقیقت یہ پھولوں کا ہار نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے ۔

اس لئے حکومت پاکستان کے پاس مسئلہ کشمیر کو عالمی عدالت انصاف لے کر جانے یا جنگ کرنے کے علاوہ ایک اور زیادہ بہتر قانونی راستہ جموں وکشمیر کی آزادی کی غیر مشروط حمایت کی شکل میں موجود ہے۔ جس کا قانونی جواز خود اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے۔  آئین پاکستان کے ارٹیکل 257 کے تحت بھی اس کا جواز موجود ہے

آئین پاکستان کے اس شق میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ” جب ریاست جموں وکشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں، تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہونگے۔”

اس لئے کشمیریوں کی حق خودارادیت کو جب تک عالمی برادری کی سپورٹ حاصل نہیں ہوتی تب تک انڈیا کی تسلط سے کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا نہ ہی اس متنازع و منقسم ریاست جموں وکشمیر میں استصواب رائے ممکن ہے”.

ان حقائق کے پیش نظر کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے 23 آگست کو ایکسپریس ٹریبیون اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک اہم مضمون بعنوان UN Trusteeship Council :A way forward for Kashmir میں لکھا ہے کہ اگرچہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ارٹیکل 7 کو invoke کیے بغیر اقوام متحدہ کی امن فوج کشمیر نہیں بھیجی جا سکتی ہے، مگر ان کا استدلال ہے کہ چونکہ اس وقت جموں وکشمیر میں انسانی کرائسس پیدا ہوچکے ہیں اس لئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے ارٹیکل 7 کے تحت کشمیر میں امن فوج بھیجی جاسکتی ہے۔

 سئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لئے انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ عرصہ دس سال کے لئے ریاست جموں وکشمیر کو اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل کی ایڈمنسٹریشن میں دیا جائے، تاکہ اس عرصے کے دوران ریاست جموں وکشمیر میں حالات بہتر ہوں اور پھر ریاست کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے خود کر سکیں، انھوں نے اپنی اس تجویز کی بنیاد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراداد نمبر 39 اور قرارداد نمبر 48 پر رکھا ہے۔

اس لیے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی غیر مشروط سپورٹ کیا جائے تاکہ دنیا تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی یا مذہبی تحریک کی بجائے ایک “آزادی کی تحریک” کے طور پر تسلیم کرے تاکہ ریاست جموں وکشمیر کو انڈیا کی تسلط سے آزادی مل سکے اور اس خطے سے ایٹمی جنگ کا خطرہ ختم ہو اور مستقل امن اور سیکورٹی کا قیام ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).