کیا بھارت کو نیوکلیئر حملے کی سفارتی حمایت مل گئی ہے؟


پاکستان کو بھارت کی طرف سے جارحیت کا خطرہ ہمیشہ سے محسوس ہوتا آیا ہے۔ بھارت پر پاکستان کے شک کی وجوہات محض خیالی نہیں بلکہ منطقی اور عملی ہیں۔ سفارتی و معاشی میدانوں سے لے کر سازشی حربوں تک بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بھارت کے پاس اس کی جو بھی منطق ہو لیکن یہ بات ریکارڈ کی ہے کہ پاکستان کو ہی ہمیشہ بھارت کے ہاتھوں دور رس نقصان ہوا ہے اور نقصان پہنچانے کی اپنی فتح کا اعلان بھی بھارتی حکام نے ہربار بڑی دیدہ دلیری سے کیا ہے۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا اپنی جوانی میں مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کروانے کی عملی جدوجہد میں مکتی باہنی کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کا اعتراف ہے۔ بھارت کی عددی برتری اور بین الاقوامی تعلقات میں مختلف وجوہات کی بناء پر گہری دوستیوں کے باعث پاکستان نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے ایٹمی پروگرام کا سہارا لیا۔ 80ء کی دہائی کے بعد بھارت اپنی خواہش کے مطابق پاکستان کو کوئی جغرافیائی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہوا۔

اس کی وجہ بھارت کا نیک ہو جانا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی نیوکلیئر برابری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جنرل ضیاء الحق سے لے کر عمران خان تک سب سربراہان بھارت کو نیوکلیئر جنگ کے خطرات سے آگاہ کرتے نظر آئے ہیں۔ اس کا پہلا مظاہرہ جنرل ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کے دوران راجیوگاندھی سے ایئرپورٹ پر الوداعی ملاقات کے دوران ہوا۔ اس کے فوراً بعد پاکستان کی سرحدوں پر بڑی تعداد میں موجود بھارتی فوجیں واپس بیرکوں میں چلی گئیں۔

اسی طرح کے بعد میں بھی کئی چھوٹے بڑے مواقع آئے جن میں سے ایک نمایاں بیان وہ تھا جب وزیراعظم نواز شریف نے کارگل کی جنگ کے موقع پر اپنی قومی تقریر میں کہا تھا کہ ”ایٹمی جنگ میں مرجانے والے خوش قسمت اور بچ جانے والے بدقسمت ہوتے ہیں۔“ جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں جب بھارت نے اپنی پوری فوجی تیاری کے ساتھ ایک صبح پاکستان پر زمینی اور ہوائی حملے کا منصوبہ بنا لیا تو چند گھنٹے پہلے جنرل پرویز مشرف کے وائرلیس پر اوپن میسج نے بھارت کو اس مہم جوئی سے باز کردیا۔

گویا یہ کہنا درست ہوگا کہ ایٹمی جنگ کی اشارتاً بات بھی دنیا میں پریشانی پیدا کردیتی تھی جس کے باعث کسی نہ کسی مصالحتی کوشش یا بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے پاک بھارت جنگ کے خطرات کچھ دیر کے لیے ٹل جاتے تھے لیکن گزشتہ تین ہفتوں سے نیوکلیئر ڈیٹرنس اور ایٹمی خطرے کی بات دنیا کے نزدیک بے معنی ہوتی نظر آرہی ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو جب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تو پاکستان کے عوام نے اِسے بڑی فکرمندی سے لیا۔

عوام کے جذبات پر پاکستانی حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کی طرح کئی مرتبہ دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ پہلے کی طرح ان بیانات کا نتیجہ یہی نکلنا چاہیے تھا کہ انٹرنیشنل سیانے دونوں ملکوں کے ساتھ رابطے کرکے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے مگر اس حوالے سے یہ بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ دونوں ملکوں کو سمجھانے کی بجائے پاکستان کے موجودہ ایٹمی خطرات کی تشویش کو دنیا نے نظر انداز کیا۔

اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک ڈیویلپمنٹ یہ ہوئی کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھارت کی نیوکلیئر وار کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ”بھارت اب تک پہلے نیوکلیئر حملہ نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن تھا لیکن اب اس پالیسی کا تعلق مستقبل کے حالات سے ہوگا۔“ راج ناتھ سنگھ کے بیان کو بالکل بھی ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ براہِ راست پیغام تھا۔ بہت زیادہ فکر کی بات یہ تھی کہ بھارتی وزیر دفاع کے اس بیان پر بھی انٹرنیشنل سطح پر کوئی خاص ہلچل نہیں ہوئی۔

اب دونوں طرف کی بیاناتی ڈیویلپمنٹ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف صاف لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی براہِ راست بات کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ 72 برس کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرات پر انٹرنیشنل برادری خاموش ہو بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انٹرنیشنل برادری ایٹمی جنگ کے خطرات کو نظر انداز کرکے بھارت کو سفارتی اور معاشی میدانوں میں زیادہ تقویت دے رہی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے قوم سے حالیہ خطاب میں ایک مرتبہ پھر ایٹمی جنگ کی ہولناکی کی بات کی ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ”پاکستان کی فوج اور عوام ہرطرح سے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔“ وزیراعظم عمران خان کے اِس بیان کا وہی مطلب ہے جو وہ کہہ رہے تھے لیکن تشویش ناک سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ انٹرنیشنل برادری دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہی بلکہ شاید اِسے صرف دیوانوں کی بڑھک سمجھ رہی ہے یا انٹرنیشنل برادری کے وہ تماش بین جو جنگوں کا مزا لیتے ہیں اور اپنا اسلحہ بیچتے ہیں وہ اِس مرتبہ خدانخواستہ کسی چھوٹی ایٹمی جنگ کا تماشا دیکھنا چاہتے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اِس کے فلمی کلپس بعد کی ہالی ووڈ فلموں میں استعمال کرکے اربوں ڈالر کمائے جائیں۔

معاملہ جو بھی ہے وہ ایک الگ بات لیکن اِس وقت دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے حوالے سے عالمی برادری کی بظاہر بے حسی دونوں ملکوں کی سفارت کاری کے مرہونِ منت ہے۔ اس کو ڈی کوڈ کیا جائے تو ایک یہ بات پتہ چلتی ہے کہ بھارت اپنے جارحانہ فیصلے کے بعد عرب دنیا میں پاپولر ہوا ہے اور مغربی دنیا میں بھی اُسے کسی خاص سفارتی شکست کا سامنا نہیں ہوا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا سفارتی گراف عرب دنیا میں کم ہوا ہے اور مغربی دنیا میں بھی کوئی خاص شنوائی نہیں ہوئی۔

اس تجزیے کو سوچا جائے تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ کیا بھارت ایٹمی جنگ کے حوالے سے عرب اور مغربی دنیا کی درپردہ حمایت حاصل کرچکا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا انٹرنیشنل ادارے ایٹمی جنگ کے اثرات کے معیار کی پیمائش کرچکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہوسکتا ہے انہیں پاکستان کی سیکنڈ سٹرائیک کے معیار اور پیمائش کا صحیح اندازہ نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ سب کچھ ایسا ہی ہوا تو بھارت کی جارحیت، عالمی سوداگروں کی بے حسی اور مسلم دنیا کی مفاد پرستی کے موجودہ واقعات کی تاریخ کئی صدیوں بعد لکھی جائے گی کیونکہ برصغیر کی اس ایٹمی جنگ کے اثرات صدیوں تک ساتوں براعظموں پر موجود رہیں گے اور بچ جانے والے تاریخ لکھنے کی بجائے اپنی زندہ رہنے کی بدقسمتی پر سسک سسک کر روئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).