بیرون ممالک پاکستانیوں کی وطن سے محبت کی کھجلیاں


بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو ایک خاص وقت کے بعد اپنے وطن کی مٹی سے محبت کی کھجلیاں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ کھجلیاں بے چینی اور پھر بے چینی سے بڑھ کر پریشانی میں بدل جاتی ہیں۔ اسی پریشانی اور افراتفری میں کچھ جذباتی لوگ نسبتا ایک پرسکون اور کسی حد تک پرآسائش زندگی کو ٹھوکر مار کر برسوں کی محنت پر پانی پھیرتے ہوے بیرون ملک میں اپنا سب کچھ برباد کرنے پر تل جاتے ہیں۔ پاکستان واپس جانے کا فیصلہ زیادہ ترکسی مجبوری سے زیادہ جذباتی ہوتا ہے۔

کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں میں جو سہولیات انسانی ضرورت کے تحت شہریوں کو دی جاتی ہیں وہی سہولتیں بدقسمتی سے پاکستان میں اپنے شہریوں کو اول تو حاصل نہیں ہوتیں اگر کسی حکومت کی طرف سے دے بھی دی جائیں تو ترسا ترسا کر دی جاتی ہیں جس کے لیے شہریوں کوکئی سال تک صبر آزاما انتظار کرنا پڑتا ہے اور جس کے بدلے میں ان کی بھرپور سیاسی قیمت عام انتخابات کے دنوں وصول کی جاتی ہے۔ مثلا صاف پانی کی فراہمی، سیورج، بجلی، انصاف، صحت و تعلیم اور کچرا کی باقاعدہ صفائی جیسی سہولتوں کے حصول کے لیے بھی باقاعدہ لوگوں کو احتجاج کرنا پڑتا ہے۔

جبکہ مغربی دنیا میں ان سب بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے کسی تردد کی ضرورت نہیں رہتی جہاں مسائل کی نوعیت یکسر مختلف ہوتی ہے جن میں زیادہ تر سماجی مسائل مثلا بیوی کا شوہر کے خلاف طلاق کے بعد جائیداد اور بچوں کی کفالت پر جھگڑا، پالتو جانوروں، اورLGBT کے لیے قانون سازی، بینکاری، انشورنس، ٹریفک اور تارکین وطن کے قوانین میں تبدیلی پر بحث، اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ جیسے سماجی مسائل شامل ہوتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی وطن سے محبت کی کھجلیوں کی جو پاکستانیوں کو گاہے بگاہے ہوتی رہتی ہیں جن کی شدت بڑھ جانے پر سب سے پہلے وہ تیزی سے اپنے کرائے کے گھر یا دکان جس پر وہ کاروبار کرتے ہیں اس کا لیز کینسل کرواتے ہیں کیونکہ پاکستان جانے کا فیصلہ جذباتی ہوتا ہے جو کسی پلاننگ کی بجایے اچانک بیٹھے بٹھائے کیا جاتا ہے لہذا ان حالات میں قبل از وقت لیز توڑنے پر جرمانہ دینا پڑتا ہے اگر کسی کا اپنا گھر ہوتا ہے تو ایسے لوگ اونے پونے سودا کرتے ہیں، گاڑی اور دیگر چیزوں کی انشورنس کو کینسل کرواتے ہیں۔

گھر کے سامان کو نیلام کرتے ہیں یا باہر پھینک دیتے ہیں۔ اور وطن کی محبت میں سرشار ہوکر پاکستان چلے جاتے ہیں، کچھ لوگ کاروبار کا سوچ کرجاتے ہیں لیکن جونہیں وہ پاکستان پہنچ کر ائیر پورٹ پر اترتے ہیں وہاں سے ائر پورٹ کے عملہ کا غیر پیشہ ورانہ رویہ، ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر مقامی ہوٹل اور پھر شاپنگ مال میں تقریبا ہر دکاندار کا یہ سمجھ کر ہر طرح کی اشیا کا کئی گنا زائد بھاؤ لگانا کہ بندہ باہر سے آیا ہوا ہے لہذا اس کو لوٹنے کی کوشش اتنی کی جائے جتنی کوئی انسان کر سکتا ہے یہ سب اور دیگر پاکستانی معاشرہ کے مسائل کے علاوہ دفتری معاملات کی بے کار کی کارروائیوں کو پورا کرتے کرتے ان کا سانس پھولنا شروع ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنی واپسی کی غلطی کا احساس ہونا بھی فطری عمل ہے۔ کیونکہ وہاں پاکستان میں سوائے مفت کے مشورے دینے والوں کے علاوہ باقی ہر چیز کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔

جس نے کاروبار کرنا ہوتا ہے تو اس کو کاروبار کی رجسٹریشن کے لیے درجنوں سرکاری دفاتر میں بیٹھے ہوے راشی افسروں کا منہہ بند کرنا ہوتا ہے کسی نے رئیل اسٹیٹ میں بزنس کرنا ہو تو اس کو اپنی خریدی ہوی جائیداد کے تحفظ پر خدشات رہتے ہیں اور جو تعلیم مکمل کرکے پاکستان واپس جاتا ہے وہاں پر پہلے سے اداروں میں اقتدار پر قابض مافیا اس کو اپنے لیے خطرہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور یوں اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔

ذاتی طور پر کینیڈا میں تقریبا آٹھ سال گزارنے اور یہاں سے کیمسٹری میں پوسٹ ڈاکٹریٹ اور پراجیکٹ منیجمنٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد کچھ ایسی ہی وطن سے محبت کی کھجلیاں میرے جسم میں بھی ہونا شروع ہوگئیں۔ میں نے بھی دیگر ہزاروں اور لاکھوں محب وطن بیرون ملک میں بسنے والے پاکستانیوں کی طرح سوچا کہ پاکستان میں جا کر محکمہ تعلیم کو دوبارہ جوائن کروں گا جس کو چھوڑ کر کئی سال پہلے میں کینیڈا آیا تھا۔

حال ہی میں میرے پنجاب کے پسماندہ ترین شہر ڈیرہ غازیخان جس سے پنجاب کے موجودہ وزیراعلی عثمان بزدار کا بھی تعلق ہے، کے سرکاری کالج جدھر میں نے تقریبا 15 سال بطور لیکچرار اپنی خدمات سرانجام دیں تھیں، کو اپ گریڈ کرکے یونیورسٹی میں بدل دیا گیا ہے جہاں پر پی ایچ ڈی فیکلٹی کی شدید کمی ہے اور ایسے اساتزہ کرام ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباؤ طالبات کو پڑھا رہے ہیں جن کی اپنی تعلیمی قابلیت محض ایم اے یا ایم ایس سی ہے۔

کیونکہ احباب اختیار نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے پاکستان کے ہر شہر میں یونیورسٹیاں تو بنا دی ہیں لیکن ان کو چلانے کے لیے وسائل نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی حتی کہ بہت سی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی فیکللٹی اور وائسلر چانسلرز کی تعنیاتی بھی کھٹائی میں پڑی ہوی ہے اور یونیورسٹیاں صرف کاغزی ڈگریاں دینے کی فیکٹریاں بن گئی ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر سرکاری نوکری نہ بھی کروں تو کوئی این جی او یا رفاحی ادارہ یا اپنا ایک خود مختیار تعلیمی ادارہ اپنے پسماندہ علاقہ ڈیرہ غازی خان میں بناوں گا جس کی رجسٹریشن کسی کینیڈا کی یونیورسٹی یا کالج سے کرواؤں گا۔

لیکن وہاں پہنچ کر سرکاری مافیا، تعلیمی بیوپار اور سوشل ورکرز کے دفاتر میں دو نمبر راشی افسر اوران کے خواتین کے بارے میں سطحی خیالات اور لغویات سن کر میرا بھی جلد ہی سانس پھول گیا اور میں بھانپ گیا کہ اس ماینڈ سیٹ کے ساتھ میرا گزارا ممکن نہیں ہے جن کا دن رات کام کارکردگی کی بجایے خوشامد کرنا اور کروانا ہو، جہاں اخلاقی معیار کی گراوٹ ہو اور ایسے آٖفیسر جن کی سوچ گھٹیا اور دماغ میں گندگی گھسی ہوی ہو ان کے ساتھ گزارا کرنا مجھ جیسے آدمی کے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ میں جس ملک سے گیا تھا وہاں دفتری اور سرکاری کام ایک ای میل اور محض ٹیکسٹ میسج پر ہوجاتے ہیں جہاں وقت کی قیمت آپ کو گھنٹوں کی بنیاد پر دی جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر نوکریوں میں آپ کوگھنٹوں کی بنیاد پر اجرت دی جاتی ہے جہاں سرکاری دفتروں میں بار بار چکر نہیں لگانے پڑتے اور آپ اپنی سرکاری فائلیں خود اٹھائے ہوے ایک سے دوسرے افسر کی ٹیبل تک نہیں گھومتے پھرتے۔

جبکہ وطن سے محبت کی کھجلی میں یہ ساری فالتو کی چیزیں مجھے پاکستانی سرکاری دفاتر میں برداشت کرنی تھیں اور مجھے اس چیز کا بخوبی علم تھا کہ جسمانی گندگی کو تو صاف کیا جاسکتا ہے جبکہ سرکاری دفاتر اور یونیورسٹیوں میں نام نہاد اور نخوت سے بھرپوراعلی تعلیم یافتہ بشمعول وائس چانسلرز، رجسٹرار، نام نہاد دو نمبر پی ایچ ڈی پروفیسرز اور سول سیکریٹریٹ میں بیٹھے سیکرٹریز کی دماغی گندگی کی صفائی کرنا تقریبا ناممکن ہے جن کے پاس اگر کوئی پڑھا لکھا شخص وطن کی محبت میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور خدمات ان کے زبوں حال سرکاری اداروں کے لیے رضا کارانہ طور پر پیش کرے تو وہ اس کو ضرورت مند سمجھ کر دھتکار دیتے ہیں جبکہ وہ ان کھجلیوں سے واقف نہیں ہوتے جو پس منظر میں رہ کر ایسے بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو ایک آرام دہ زندگی سے کھینچ کر ان کی مصنوعی رعونیت کے سامنے لاکھڑا کرتی ہیں۔

مختصر یہ کہ بے کار اور فالتو کی محکمانہ کارروائی اور متعلقہ مقامی یونیورسٹی کے ایک سرکاری کاغذ این او سی کے حصول کے لیے درجنوں چکر لگانے، وہاں بیٹھے ہوے کرتا دھرتوں کی دربار میں بار بار حاضری دینے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا اور ڈیڑھ سال تک طویل انتظارکرنے کے بعد با الاخر مایوس ہوکر میں نے نوکری سے استعفی دے کر خیالوں میں بنائے ہوے کئی ہوائی پراجیکٹ کو خیرباد کہتے ہوے اپنے دوسرے وطن کینیڈا واپسی کی راہ لے لی۔

جس ملک میں دنیا کی قیمتی ترین چیز وقت کی قدر نہ ہو اور جہاں یونیورسٹی سے ایک این او سی کے حصول کے لیے اعلی تعلیم یافتہ شخص کو ڈیڑھ سال تک کا انتظار کرنا پڑے، اور جس ملک میں نا اہل، راشی اور خوشامد پسند لوگوں کے پاس دستخظ کرنے کا اختیار ہو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).