پھر گھروں میں محصور کشمیریوں کو کون یاد رکھے گا؟


ایک شاعر نے کہا تھا کہ چند باتیں جو بیان کرنا لازم ہیں ’’فسادِ خلق‘‘ کے خوف سے نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ گفتنی ناگفتنی رہ جاتی ہے۔ ’’حق گوئی‘‘ کا ایک زمانے میں مجھے بھی بہت شوق تھا۔ فقدانِ راحت کے ڈر سے مگر اپنی محدودات کو بتدریج دریافت کرہی لیا۔ لفظوں کو احتیاط میں لپیٹ کر ادا کرتا ہوں۔ کولہو میں جتے بیل کی مانند آنکھوں پر کھوپے چڑھا رکھے ہیں۔ دائرے میں سفر کی مشقت سے تیل اپنا ہی برآمد ہوتا ہے جو بازار میں سستے داموں میسر ہے۔

فدویانہ رویے کا عادی ہوجانے کے باوجود یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ بدھ کے روز رانا ثناء اللہ کے خلاف بنائے کیس کی سماعت کے دوران  Whatsappکی بدولت جو داستان تخلیق ہوئی ہمارے سامنے نہ آتی تو بہتر تھا۔ یہ کہنے کے باوجود مجھے قوی امید ہے کہ اس داستان کو جلد فراموش کردیا جائے گا۔ واقعہ اتنا بھی سنگین نہیں ہے جو ارشد ملک کے وڈیو کی صورت دھماکے کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ وہ خیروعافیت سے گزرگیا۔ بدھ کے روز چلی کہانی بھی جلد بھلا دی جائے گی۔

میرے اور آپ جیسے دیہاڑی دار اور ماہانہ تنخواہ کی طلب میں آنکھوں پر کھوپے چڑھائے بیلوں کے لئے بدھ کے روز ویسے بھی دل دہلادینے والی حقیقی خبر یہ تھی کہ 1979-80کے مالیاتی سال کے بعد 2018/19کے اختتام پر ہماری تاریخ میں ریکارڈ خسارہ دیکھنے کو ملا ہے۔ خسارے کی یہ خبر کسی دشمن نے نہیں پھیلائی۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے خلقِ خدا کے سامنے روبرو لائے ٹھوس اعدادوشمار نے یہ پریشان کن خبر بنائی ہے۔

مذکورہ خبر کا سنگین تر پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے خسارے کی جو شرح ہمارے سامنے لائی گئی ہے وہ  IMF کے تیارکردہ نسخے کی صریحاَ خلاف ورزی ہے۔ یہ اپنے مقام پر برقرار رہی تو ہمیں بیل آئوٹ پیکیج کی آئندہ قسط دینے سے قبل ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شبرزیدی کو مزید ٹیکس لگانے کو مجبور کیا جائے گا۔ وہ یہ ٹیکس لگانے سے گھبرائیں گے تو حکومتی آمدنی میں اضافے کے لئے بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھانا ہوں گے۔ یہ نرخ بڑھے تو ہماری حقیقی آمدنی مزید سکڑ جائے گی۔ حکومت خلقِ خدا کی بھلائی کے لئے کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کر پائے گی۔ کاروباری افراد نے پہلے ہی ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ جن کے پاس وافر رقوم ہیں وہ ان کے ذریعے اپنا کاروبار پھیلانے یا نئی سرمایہ کاری کے بجائے سونے کی ڈلیاں خریدنا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی باعث سونے کی فی تولہ قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان کی معیشت میں کساد بازاری، بے روزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافے کے تناظر میں 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوا عذاب مزید تکلیف دہ محسوس ہورہا ہے۔ ایک وسیع وعریض جیل میں محصور ہوئے 80 لاکھ انسانوں کو دُنیا سے کٹے آج 24واں دن شروع ہوگیا ہے۔ ہمیں امید تھی کہ بھارتی وزیر اعظم سے فرانس میں حالیہ ملاقات کے دوران امریکی صدر اپنے ’’یار‘‘ سے ہتھ ہولا رکھنے کی استدعا کرے گا۔ موصوف نے 45 منٹ لمبی ملاقات کے دوران شاید اس جانب بھی توجہ دلائی ہوگی۔ بھارتی وزیر اعظم نے مگر اسے قائل کردیا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بھارتی سرکار کے ’’قابو‘‘ میں ہیں۔ موبائل اور لینڈ لائن والے فونوں کو بند کر کے جو لاک ڈائون لاگو ہوا ہے اس کی وجہ سے وادیٔ کشمیر میں احتجاج اس شدت سے رونما نہیں ہورہا جس پر قابو پانے کے لئے قابض افواج کو لاشیں گرانا پڑیں۔ انسانی جانوں کے ’’تحفظ‘‘ کی خاطر یہ لاک ڈائون لہذا ضروری ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو ویسے بھی’’انسانی حقوق‘‘ کی زیادہ پرواہ نہیں۔ وہ دھندے کا بندہ ہے۔ America First کے جنون میں مبتلا۔ بھارت کے ساتھ تجارت میں اس کے ملک کو سالانہ 60 ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔ نریندرمودی نے کمال مکاری سے اس کو یہ امید دلائی کہ بھارتی حکومت امریکی خسارے میں کمی لانے کے لئے ٹھوس اقدامات لینے کو تیار ہے۔ فرانس سے اپنے وطن لوٹنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے ’’غیر ملکی سرمایہ کاری‘‘ میں آسانی لانے کے لئے کچھ اعلانات کروائے ہیں۔ ان کے ذریعے ٹرمپ کو یہ باور کروایا جائے گا کہ اس کے سرمایہ کار دوستوں کے لئے بھارت میں منافع کمانے کے لئے مذکورہ اعلانات کافی ہوں گے۔

دریں اثناء بھارت کو یہ امید بھی ہے کہ عالمی میڈیا وقت گزرنے کے ساتھ  Kashmir Storyکو بھلانا شروع ہو جائے گا۔ ہانگ کانگ میں ہر ویک اینڈ پر چینی حکومت کے خلاف جلوس نکلتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسے ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے طاقت کے بھرپور استعمال سے روکنے کی کوشش کی۔ بظاہر کامیابی نہیں ہوئی۔ چین کے کئی دشمن اب یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اگر ہانگ کانگ کی ’’خودمختار‘‘ انتظامیہ اپنے تئیں ہنگاموں پر قابو پانے میں ناکام رہی تو بالآخر چینی صدر امن وامان کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے اپنے ملک کی فوج کو وہاں بھیجنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایسا ہوا تو عالمی میڈیا کو ’’انسانی حقوق‘‘ کے تناظرمیں ’’ہر پل کی خبر‘‘ دینے والی صحافت کی ضرورت محسوس ہوجائے گی۔ ہانگ کانگ میں چلی لاٹھی، گولی اور آنسو گیس مقبوضہ کشمیر کو لاک ڈائون کے ذریعے قبرستان بنانے والی’’خبر‘‘ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ’’ڈرامائی‘‘ ہو جائے گی۔

مقبوضہ کشمیر کے حقائق سے توجہ ہٹانے کے لئے طالبان کے ساتھ دوحہ میں جاری مذاکرت کے انجام کا بھی بے چینی سے انتظار ہو رہا ہے۔ نظر بظاہر معاہدہ ہو چکا ہے اس کا محض اعلان ہونا باقی ہے۔ ممکنہ اعلان کو ستمبر کے پہلے ہفتے کے اختتام کے بعد مزید ٹالا نہیں جا سکتا۔

طالبان کے ساتھ معاہدے کا اعلان ہو گیا تو اس کا ’’ردعمل‘‘ بھی ضروری ہے۔ کئی افغان گروہ متوقع اعلان کے بعد امریکہ پر یہ الزام لگائیں گے کہ امریکہ نے انہیں طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئی صف بندیاں شروع ہوگئی ہیں۔

’’افغان جہاد‘‘ کی پہلی دو دہائیوں میں گل بدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو افغانستان کے پشتو بولنے والوں کا اصلی تے وڈا ترجمان سمجھاجاتا تھا۔ حکمت یار کی مزاحمت کے لئے تاجک احمد شاہ مسعود سے پناہ کے طلب گار ہوئے۔ افغانستان کو سوویت یونین سے ’’آزاد‘‘ کروا لینے کے بعد حکمت یار اور مسعود کے حامیوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ کابل شہر کی حقیقی تباہی ان کے مابین خانہ جنگی کی بدولت ہوئی۔ خانہ جنگی سے پریشان ہوئے افغانوں کو حوصلہ دینے کے لئے بالآخر طالبان نمودار ہوئے۔ اپنے عروج کے ایام میں بھی وہ مگر افغانستان کے شمال میں موجود احمد شاہ مسعود کے زیرنگین علاقوں پر قبضہ نہ کر پائے۔ حکمت یار البتہ طالبان سے جان بچانے ایران چلا گیا۔

دوحہ میں جاری مذاکرات کا انجام ابھی ہمارے سامنے نہیں آیا ہے مگر حکمت یار کی جماعت نے طالبان سے ممکنہ اتحاد کی بات چیت شروع کردی ہے۔ اقتدار میں اپنی واپسی کو یقینی تصور کرتے ہوئے طالبان نے افغان حکومت کے تنخواہ دار ملازموں، سپاہیوں اور فوجیوں کو یہ بتانا شروع کر دیا ہے کہ وہ ’’پالتو سرکار‘‘ کی نوکری چھوڑ کر ان کی پناہ میں آ جائیں تو ان کی ماضی کی خطائیں معاف کر دی جائیں گی۔

طالبان اور حکمت یار کے مابین’’دوستی‘‘ کے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرانس کی خبررساں ایجنسی AFPکی بدولت احمد شاہ مسعود کا بیٹا اپنے باپ کے ’’سیاسی وارث‘‘ کے طور پر ’’اچانک‘‘ نمودار ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ فرانس نے ہمیشہ احمد شاہ مسعود کو ’’افغان جہاد‘‘ کے حقیقی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ اس کی جماعت کو سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے دوران فرانس کے فوجی مشیر’’گوریلا جنگ‘‘ کو توانا تر بنانے کے مشورے دیا کرتے تھے۔ طالبان کے عروج کے بعد فرانس، بھارت اور ایران نے یکجا ہو کر احمد شاہ مسعود کی ’’خود مختاری‘‘ بچائے رکھی۔ امریکہ – طالبان معاہدے کے بعد افغانستان میں تاریخ خود کو مزید خوفناک انداز میں دہرا بھی سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو گھروں میں محصور کشمیریوں کو کون یاد رکھے گا؟

بشکریہ: نوائے وقت 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).