اداکار کی لاش کہاں پہنچانی ہے؟


یہ کہانی نہیں میری شرمندگی کی داستان ہے، لوگ مجھے ایک بہادر آدمی سمجھتے ہوں گے لیکن اس واقعہ نے مجھ پر ثابت کر دیا تھا کہ میں کتنا کمزور اور بے بس شخص ہوں،کاش اس دن جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا، اس دن کا سورج ہی نمودار نہ ہوتا، کاش میں اس دن بھی سماج سے بغاوت کر دیتا اور ایک بیٹی کے مکالمے پر زندگی قربان کرکے اسے سینے سے لگا لیتا اور اسے اپنے وجود کا حصہ بنا لیتا،پتہ نہیں آج وہ کہاں ہوگی؟ کس حال میں ہوگی؟ پچیس سال بیت گئے ہیں اس سے آخری ملاقات کو، جب بھی اس کا خیال آتا ہے روح کانپ جاتی ہے میری، میں اور تو کچھ نہیں کر سکتا مگر اسے آج بھی کھوجتا رہتا ہوں، جب بھی کسی کی بھی بیٹی کو مشکل حالات سے جنگ لڑتے ہوئے دیکھتا ہوں تو اس کا معصوم چہرہ میرے سامنے آ جاتا ہے.

پچیس سال پہلے جو واقعات خال خال تھے وہ آج عام عام ہو چکے ہیں، بات کرتے ہیں ایک خوبرو، دراز قد نوجوان کی جو ستر کی دہائی کے شروع میں فلمی ہیرو بننے کے شوق میں جہلم کے کسی با عزت گھرانے سے بھاگ کر لاہور چلا آیا تھا۔۔۔ سوا چھ فٹ کا خوبرو جوان، گوری چٹی رنگت۔ میں پندرہ سولہ برس کا تھا جب لکشمی چوک میں مشتاق پان شاپ کے قریب کھمبے پر لٹکا ہوا ایک فلمی پوسٹر دیکھنا شروع کیا، فلم کا نام تھا ، کئی سال پہلے.

سدھیر، رخسانہ اور ترانہ کے ساتھ سیکنڈ ہیرو تھا نیا لڑکا وہی گھر سے بھاگا ہوا نوجوان، ، فلم کا پروڈیوسر ، ڈائریکٹر دلاور جو فلموں کے لئے ماسک بنانے کا ماہر تھا، قیام پاکستان سے دوسال پہلے بی آر چوپڑا کے یونٹ میں شامل ہو کر کلکتہ بھی گیا تھا، مذکورہ فلم ’’کئی سال پہلے‘‘ مکمل ہو کر بھی ریلیز نہ ہو سکی تھی۔ اخبار فروش یونین کے بانی مولوی حبیب اللہ صاحب نے اچھرے میں میرے والد کے کہنے پر ہماری ہی گلی میں مکان بنا لیا ، مولوی صاحب کا بڑا بیٹا اختر حبیب پورے شہر کی خبریں رکھا کرتا تھا ، اس کی زبانی ہمیں روزانہ کوئی نہ کوئی نئی کہانی سننے کو ملتی.

اسی سے پتہ چلا کہ الطاف نامی ایک نیا ایکٹر بھی اس کا دوست ہے اور اختر ہی اسے کہیں نہ کہیں رہنے کے لئے کمرہ یا مکان لے کر دیتا ہے،، پھر تین چار سال بعد ہم نے الطاف کو پنجابی فلموں میں چھوٹے موٹے رول کرتے ہوئے دیکھا، حسن عسکری نے اسے پہلی بار وحشی جٹ میں نمایاں کردار دیا ،وہ سلطان راہی کا وفادار قصاب دوست بنا تھا۔ انہی دنوں اس کی شادی ہو گئی، اختر حبیب نے اسے اپنے گھر کے ساتھ والا مکان کرائے پر لے دیا ، الطاف خان صبح دس گیارہ بجے رکشے پر اسٹوڈیو جاتے ہوئے نظر آتا، یا کبھی رات گئے واپسی پر، کردار چھوٹے چھوٹے ہی سہی وہ مصروف بہت ہو گیا تھا، اس نے لا تعداد فلموں میں کام کیا، پہلے اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی پھر بڑی منتوں کے بعد اللہ نے بیٹے سے بھی نواز دیا، بیٹے میں لڑکیوں جیسی شرمیلی خصلتیں موجود تھیں، شاید یہ قدرت کی طرف سے تھا یا ماں باپ کی غیر ضروری توجہ اور نگہبانی کا نتیجہ؟

، دن مہینے اور مہینے سال بنتے رہے، ایک وقت آیا کہ لوگوں نے الطاف خان کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر لڑائی جھگڑے شروع کر دیے، شور ہوتا تو محلے کے لوگ بھی جمع ہو جاتے ، پتہ چلا کہ الطاف خان کے گھر کمیٹیاں ڈالی جاتی تھی ، جنہیں وعدے کے مطابق کمیٹی نہ ملتی وہ اس کے گھر کے باہر احتجاج کرتے، یہ بھی پتہ چلا کہ الطاف خان کے سالے کسی چھوٹے موٹے اسٹیشن کے لئے فلمیں خریدتے ہیں ، فلم ناکام ہو جاتی ہے اور کمیٹیوں والوں کی رقمیں ڈوب جاتی ہیں ،، یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا، الطاف خان کے دونوں بچے سیانے ہونے لگے، انہیں صرف دن میں ایک آدھ بار گلی کی نکڑ پر پرچون کی دکان تک جانے کی اجازت تھی، پھر ایک دن الطاف خان کی بیوی مر گئی۔

 میں بھی اس کے جنازے میں شریک تھا، پھر الطاف خان دن چڑھے بیکری تک جاتے ہوئے نظر آنے لگا، اس کے ہاتھوں میں ڈبل روٹی ، انڈے ہوتے، اس کے بعد وہ اسٹوڈیو چلا جاتا ، بچوں کو اسکولوں سے اٹھا لیا گیا ، اس کی عدم موجودگی میں بچوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی، الطاف خان کبھی معاوضہ لینے والا ایکٹر نہیں بن سکا تھا، مزدوروں کی طرح شفٹ کے پیسے ملتے تھے اسے، وہ ایک دیہاڑی دار ایکٹر تھا، لگ گئی تو ٹھیک ورنہ خالی جیب گھر واپسی ، سالہا سال تک محلے میں رہنے کے باوجود اس کی کسی سے علیک سلیک تک نہ تھی. اس کا دوست اختر حبیب بھی بہت سال پہلے کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہو چکا تھا.

ایک دن عجب تماشہ ہوا ، الطاف خان اچانک ہاتھ جوڑے، منتیں کرتے ہمارے گھر کے صحن میں گھس آیا،، بہت خوفزدہ تھا وہ اس وقت ، باہر گلی میں شور تھا، وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ مالک مکان گھرخالی کرانے آ گیا ہے۔ پچھلے تین ماہ کا کرایہ مانگ رہا ہے، میں اس کی مدد کروں اور اسے کچھ دنوں کی مہلت دلا دوں، الطاف خان کے مالک مکان کی اسی علاقے میں پرچون کی دکان تھی ،میں نے گلی میں جا کر اس سے بات کی ،، اس کا کہنا تھا کہ وہ تین ماہ کا کرایہ معاف کرتا ہے ، یہ آج ہی مکان خالی کر دے میں نے چند دنوں کی مہلت کے لئے کہا تو مالک مکان نے کہا تو پھر آپ پچھلا کرایہ ادا کر دیں۔

میں نے ایک ماہ کا کرایہ ادا کرکے الطاف خان کو دو ہفتوں کی مہلت دلا دی، الطاف دو ہفتوں سے پہلے ہی مکان چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا، پھر کئی دنوں کے بعد اس کی بیٹی اور بیٹا میرے پاس آئے اور بتایاکہ ان کا باپ انہیں کسی دوسرے کرائے کے مکان میں لے گیا تھا، پہلے دن انہوں نے نئے گھر میں بازار سے لایا گیا کھانا ایک ساتھ کھایا، پھر باپ اسٹوڈیو چلا گیا، لیکن لوٹ کر واپس نہیں آیا، بچوں کو کھانا نئے گھر کی مالک خاتون کھلا رہی تھی، ایک ہفتہ گزر چکا تھا، بچوں نے تینوں اسٹوڈیوز کے کئی چکر کاٹے اس کا کوئی پتہ نہ چل رہا تھا.

اس کی تلاش کے لئے میڈیا کی مدد لی گئی ، لیکن سب بے سود ، پھر بچوں کو ان کا ماموں لے گیا جو خود ایک کمرے کے گھر میں بیوی اور کئی بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا، کئی ہفتے گزر گئے الطاف خان کو لا پتہ ہوئے ، ایک دن اطلاع ملی کہ وہ ملتان میں ہے، ایک سینما ہاؤس میں ہونے والے اسٹیج ڈرامے میں کام کر رہا ہے، اور رات کو وہیں سو جاتا ہے، اس کے دونوں بچے اسے لینے گئے، میں نے ڈرامے کے پروڈیوسر کے موبائل پر خود بھی اس سے بات کی، وہ واپس آنے کو تیار ہوا نہ بچوں کو اپنے پاس رکھنے پر۔

 باپ سے ملاقات کے بعد دونوں بچے اپنے ماموں کے ساتھ آخری بار مجھ سے ملے۔ میری آنکھیں شرم کے زمین میں گڑھ گئیں، دماغ سن ہو گیا،، میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اس کے اس سوال کا۔ لیکن آج سوچتا ہوں کہ کیا میں اس بے کس بچی کو پناہ نہیں دے سکتا تھا؟ چھ ماہ بعد ہی ملتان سے ہمارے ساتھی صحافی جمشید رضوانی نے مجھے فون کرکے بتایا کہ جس الطاف خان کو آپ ایک بار ڈھونڈھ رہے تھے وہ مر گیا ہے ، یہاں کسی کو پتہ نہیں کہ لاش کہاں پہنچانی ہے؟۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).